کتاب: محدث شمارہ 233 - صفحہ 52
طور پر نشانہ بنایا گیا'' (صفحہ ۶۴) اسلامی ریاست میں دین و سیاست کی وحدت کا قیام بے حد ضروری ہے۔ اسلام میں کلیسا اور ریاست کی علیحدگی کا تصور نہیں پایا جاتا۔ اگر دین کو حکومت سے جدا کردیا جائے تو دین کی اصل قوت اور فوقیت ختم ہو کر رہ جائے گی۔ جب کمال اتاترک نے لادینی نظام نافذ کردیا تو ترکی میں بھی یہی صورتحال سامنے آئی۔مراکشی مصنف پروفیسر ادریس کتانی اپنی تصنیف ''مسلم مغرب بالمقابل لادینیت'' میں اس تبدیلی پرروشنی ڈالتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ: ''ترکی کے گذشتہ ساٹھ سال کے تجربہ نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ اسلامی مملکت میں لادینی نظام کے قیام کامطلب اسلام کو زندہ عقیدہ اور انسانیت کے لئے دائمی پیغام کے طور پر ختم کردینا ہے کیونکہ حکومت کو دینی اقدار اور دینی رنگ سے جدا کردینے کا مطلب دین اسلام کو قطعا ً ختم کردینا ہے۔ ترکی میں بالکل یہی ہوا ہے کہ جب کمال اتاترک کے حامیوں نے حکومت کو دین سے جدا کرلیاتو انہیں درحقیقت دینی اقدار سے کوئی دلچسپی نہ رہی۔ اس لئے انہوں نے مساجد کی دیکھ بھال اور دیگر دینی معاملات کے لئے ایک چھوٹا سا ادارہ بنا دیا تھا اور یہی ترکی میں اسلام کی باقی ماندہ نشانی ہے'' (صفحہ ۵۷) مصطفی کمال اتاترک''تہذیب ِمغرب کا پرجوش پجاری اور اس کا ایک وفادار حواری'' تھا۔ ترکی میں اس تہذیب کو مسلط کرنے کے لئے ا س نے جو اقدامات کئے ان میں ہمہ گیر اور مہلک ترین اس کا وہ فیصلہ تھا جس کی رو سے اس نے عربی رسم الخط کی بجائے لاطینی رسم الخط کو متعارف کرایا، جس کے نتیجے میں ترکی نسل اپنے اَسلاف کے عظیم ثقافتی اور علمی وِرثے سے کٹ کر رہ گئی۔ اسلامی علوم کے عظیم ذخائر اور کتب خانے محض الماریوں میں بند ہو کر رہ گئے۔ بقول سید ابوالحسن علی ندوی ''تنہا عربی رسم الخط کی بجائے لاطینی رسم الخط کے اجراء نے ترکی قوم کی زندگی میں انقلابِ عظیم برپا کردیا اور ایک نئی نسل کو جنم دیا جس کا رشتہ اپنی قدیم تہذیب و ثقافت سے کٹ چکا ہے'' مصطفی کمال پاشا کی الہامی تعلیمات سے شدید نفرت کا اندازہ اس واقعہ سے ہوسکتا ہے کہ اس نے غصہ میں آکر قرآنِ مجید کو شیخ الاسلام کے سر پر دے مارا تھا۔ ایک عظیم ترین مقدس الہامی کتاب کے ساتھ اس توہین آمیز برتاؤ کی توقع کسی غیر مسلم سے بھی کم ہی کی جاسکتی ہے۔ مصطفی کمال پاشا، اسلام کو اپنے تصور پر مبنی ریاست کے لئے ایک خطرہ سمجھتے تھے ۔ وہ اسلام کی آفاقیت کے منکر تھے۔ وہ اسلام کو محض عربوں کا مذہب کہہ کر اس کی تحقیر کرتے تھے۔ ریاست کو سیکولر بنانے کا بل پیش کرتے ہوئے ۳ /مارچ ۱۹۲۴ء کو مصطفی کمال نے اپنی تقریر میں واضح طور پر کہا کہ