کتاب: محدث شمارہ 233 - صفحہ 51
اسلام کو سرکاری مذہب کی حیثیت حاصل نہیں رہی، دین و سیاست میں تفریق ہوگئی اور یہ فیصلہ کر لیا گیا کہ مذہب انسان کا ذاتی معاملہ ہے، ہر شخص اپنے لئے کسی مذہب کا انتخاب کرسکتا ہے، خلافت کے ادارہ کو ختم کردیا گیا، شرعی اداروں اور محکموں اور اسلامی قانونِ شریعت کو ملک سے بے دخل کرکے سوئٹرز لینڈ کا قانونِ دیوانی، اٹلی کا قانونِ فوجداری اور جرمنی کا قانونِ بین ُالاقوامی تجارت نافذ کردیا گیا۔ پرسنل لاء کو یورپ کے قانونِ دیوانی کے مطابق و ماتحت کردیا گیا، دینی تعلیم ممنوع قرار پائی، پردہ کو خلاف ِقانون قرار دے دیا، مخلوط تعلیم کا نفاذ کیا گیا، عربی حروف کی جگہ لاطینی حروف جاری ہوئے، عربی میں اذان ممنوع قرار پائی، قوم کا لباس تبدیل ہوگیا۔ ہیٹ کا استعمال لازمی قرار پایا، غرض کہ کمال اتاترک نے ترکی قوم اور حکومت کی دینی اساس کو توڑ پھوڑ کے ختم کردیا اور قوم کا نقطہ ٔ نظر ہی بدل دیا'' (اسلامیت اور مغربیت کی کشمکش: صفحہ ۸۲)
'کمالی انقلاب' نے ترکی معاشرہ میں جو دور رس نتائج مرتب کئے، اتاترک کا انگریز سوانح نگار آرم سٹرانگ اس کی نشاندہی ان الفاظ میں کرتا ہے: (صفحہ ۲۴۲)
''پارلیمنٹ نے جو فیصلے کئے، حقیقت میں وہ اسلام کے حق میں کاری ضرب اور پیامِ موت کی حیثیت رکھتے تھے۔ تعلیم کی وحدت کا قانون نظامِ تعلیم میں دور رَس تبدیلیوں کا باعث بنا۔ اس تبدیلی نے مدرسوں کی سرگرمیوں اور ان علماء و اساتذہ کی آزادی کو ختم کردیا جو ان میں تعلیم دیتے تھے''
ترکی میں سیکولرازم کے نفاذ کاذکر کرتے ہوئے عالم عرب کے معروف اسلامی سکالر ڈاکٹر یوسف قرضاوی اپنی حالیہ تصنیف ''اسلام اور سیکولرازم'' میں فرماتے ہیں :
''اسلامی ممالک میں سیکولرازم کی حکمرانی کی واضح اور نمایاں ترین مثال ترکی کی ہے، جہاں خلافت ِاسلامیہ کو ختم کرکے اور خون کا دریا عبور کرکے پورے زور اور قوت کے ساتھ لادینیت کومسلط کیا گیا۔ اتاترک نے جبر و تسلط کے ساتھ سیاست، اقتصاد، اجتماع، تعلیم اور ثقافت، غرض زندگی کے ہر پہلو میں مغربی طرزِ حیات جاری وساری کردیا اور ترک قوم سے اس کی ثقافت ، اس کی اَقدار اور اس کی روایات اس طرح سلب کرلیں جس طرح ذبح شدہ بکری کی کھال کھینچی جاتی ہے۔ اتاترک نے دین کو دنیا سے بالکل علیحدہ کرکے ایک لادینی دستور نافذ کردیا اور اس اساس پر خاندانی اور شخصی معاملات سمیت تمام پہلوؤں میں خلاف ِاسلام قوانین نافذ کردیئے۔ اسلام جو پہلے دین و سیاست دونوں پر مشتمل تھا، اب بیک جنبش قلم صرف ذاتی مسئلہ بن گیا۔ کسی اسلامی ملک میں مکمل طور پر سیاست کی اسلام سے علیحدگی اور مغربی طرز کی لادینی ریاست کے قیام کا یہ عمل بالکل منفرد تجربہ تھا۔ اسلام کوسیاست و اقتدار سے علیحدہ کر دینے کے نتیجہ میں اسلام عوامی حلقوں بالخصوص کسانوں میں محدود ہو کر رہ گیا، اسلام کو جڑ سے ختم کرنے کے لئے اس کو خاص