کتاب: محدث شمارہ 233 - صفحہ 50
پڑے'' (صفحات ۲۳۷۔۲۳۸)
اتاترک کا یہی سوانح نگار ایک اور جگہ لکھتا ہے:
''اس کے نزدیک نفسیاتی اصول و نظریات اور فلسفیانہ اصطلاحات کے کوئی معنی نہیں تھے، اسی لئے قدرتی طور پر ترکی قوم کے لئے مذہب کو غیر ضروری اور بے کار قرار دینے میں اس کو کوئی تامل نہیں تھا۔ لیکن مذہب کی جگہ پر اس نے اگر ترکی قوم کو کوئی چیز دی تو وہ ''نیا دیوتا'' تھا یعنی مغربی تہذیب۔ اسلام اور راسخ العقیدہ مذہبیت سے اس کو شدید نفرت تھی۔ یہ کوئی راز کی بات نہیں تھی کہ مصطفی کمال ایک غیر مذہبی آدمی تھا۔ ایک دفعہ اس بات سے سنسنی پھیل گئی کہ مصطفی کمال نے شیخ الاسلام کے سر پر، جو اسلام کے بڑے عالم اور ایک قابل احترام بزرگ تھے، قرآنِ مجید پھینک کر مارا'' (صفحہ ۲۳۹)
[اقتباسات ماخوذ : ''اسلامیت اور مغربیت کی کشمکش''از سید ابوالحسن علی ندوی ]
مندرجہ بالا سطو رمیں کمال اتاترک کے ملحدانہ خیالات اور شخصی کردار کے بعض پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ۱۹۲۴ء میں خلافت اور عثمانی سلطنت کے خاتمہ کے بعد اس نے جو اصلاحات متعارف کرائیں اور جو انقلابی اقدامات اٹھائے، اس کا مختصر تذکرہ حسب ِذیل ہے۔
کمال اتاترک کا انگریز سوانح نگار آرم سٹرانگ (Arm Strong) اس کے انقلابی اقدامات کاتذکرہ ان الفاظ میں کرتا ہے:
''اتاترک نے عظیم پیمانے پر شکست و ریخت کی۔اس نے زبردست اور عمومی کارروائی کی تکمیل کرنی شروع کی جس کا آغاز وہ کرچکا تھا۔ اس نے فیصلہ کیا تھا کہ ترکی کو اپنے بوسیدہ اور متعفن ماضی سے علیحدہ کرنا ہے۔ اس نے اس قدیم سیاسی ڈھانچے کو واقعی توڑ پھینکا، سلطنت کو جمہوریت سے آشنا کیا، اور اس ترکی کو جو ایک ایمپائر تھی ایک معمولی ملک میں تبدیل کردیا اور ایک عظیم مذہبی ریاست کو حقیر درجہ کی جمہوریہ بنا دیا۔ اس نے سلطان کو معزول کرکے قدیم عثمانی سلطنت سے سارے تعلقات ختم کر لئے تھے۔ اب اس نے قوم کی عقلیت، اس کے قدیم تصورات، اَخلاق و عادات، لباس، طرز ِگفتگو، آداب، معاشرت، اور گھریلو زندگی کی جزئیات تک تبدیل کرنے کی مہم شروع کی
(Grey wolf: p287)
کمال اتاترک نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ''میں نے دشمن پر فتح پائی اور ملک کو فتح کیا، لیکن کیا میں قوم پر بھی فتح پاسکوں گا؟'' اتاترک کے اس قول پر تبصرہ کرتے ہوئے سید ابوالحسن علی ندوی لکھتے ہیں :
''کمال اتاترک نے واقعتا قوم پر فتح پائی، ملک کو سیکولر سٹیٹ میں تبدیل کردیا، جس میں