کتاب: محدث شمارہ 233 - صفحہ 5
آپ کا قیام دعوت و خطاب کے علاوہ کسی اور مقصد کے لیے نہ ہوتا تھا۔ آپ فصیح البیان مقرر تھے۔ جس طرح کوئی صاحبِ طرز ادیب ہوتا تھا ویسے ہی آپ ایک صاحبِ طرز خطیب تھے۔ آپ عموماً کسی موضوع پر تقریر کرتے تو پھر اس موضوع کے ہر گوشے کا احاطہ کرتے۔ آپ کا استدلال ہمیشہ کتاب و سنت پر مبنی ہوتا تھا۔ اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں تقریر فرماتے۔ آپ کا خطاب زیادہ تر قرآنی آیات اور احادیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے مزین ہوتا تھا۔ قرآن پڑھنے کا ان کا اپنا ایک سادہ اسلوب تھا جو سننے والے کو مسحور کرتا تھا۔ تقریر کی دل نشینی کا یہ عالم ہوتا تھا کہ گھنٹوں سامعین جم کر آپ کا خطاب سنتے اور سر دُھنتے تھے۔ قوتِ استدلال کا یہ عالم تھا کہ بہت سے غیر مسلم آپ کی تقاریر سے متاثر ہو کر اسلام قبول کرتے اور مسلمانوں میں سے بہت سے جامد مقلد حضرات تقلید کو ترک کر کے مسلکِ اہلحدیث قبول کر لیتے تھے۔ آپ کے خطابات سے متاثر ہو کر اسلام اور مسلک اہل حدیث کو قبول کرنے والے کسی صورت میں بھی ہزاروں سے کم نہیں ہیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد کی نصف صدی ملک کے چاروں صوبوں میں کوئی ایسا قابل ذکر شہر، قصبہ یا قریہ نہیں جہاں آپ کی خطابت کا جادو اپنا رنگ نہیں دکھاتا تھا۔ ہر چند آپ کے وعظ، تقاریر اور خطابات صرف اور صرف کتاب و سنت سے مستفیض اور مستیز ہوتے مگر آپ کی شیریں زبان اور پرزور استدلال نے سامعین کے دلوں میں گھر کیا ہوا تھا۔ ہر کہیں آپ سے خطابت کی فرمائش ہوتی تھی اور آپ بھی اشاعتِ دین کے جذبے سے سرشار جائے معینہ اور وقت مقررہ پر وہاں تشریف لے جاتے۔ اس سلسلے میں آپ ہوائی جہاز، ریل ، بس، کار، موٹر سائیکل، گھوڑے خچر یا پیدل ہر طرح سے مختلف مقامات پر پہنچتے اور سامعین کے دلوں کو کتاب و سنت کے خالص نشے سے مسحور کرتے تھے۔ آپ کی تمام تر تقریر مدلل اور دلنشین ہوتی تھی۔ موقع محل کی مناسبت سے تمثیلات بھی پیش کرتے۔ ان کی تقاریر کے سینکڑوں ریکارڈ کیسٹ کی صورت میں دستیاب ہیں۔ ضرورت ہے کہ ان تمام کیسٹوں کی مدد سے آپ کے خطابات کا ایک جامع مجموعہ مناسب و تدوین کے ساتھ شائع کیا جائے تاکہ کتاب و سنت کی حقانیت پر مبنی آپ کے مخصوص طرزِ استدلال اور طرزِ تکلم کو محفوظ کیا جا سکے اک دھوپ تھی کہ ساتھ گئی آفتاب کے! حافظ صاحب کی شخصیت اور خدمات کا ایک پہلو اُن کی مناظرانہ سرگرمیاں ہیں۔ علومِ اسلامیہ میں مباحثہ و مجادلہ اور مناظرہ کی ایک خاص اہمیت ہے۔ علم مناظرہ کی تاریخ صدیوں قدیم ہے اور اس موضوع پر بہت سی معرکۃ الآراء کتب موجود ہیں۔ مدارسِ نظامیہ میں فن مناظرہ کی مخصوص کتاب رشیدیہ