کتاب: محدث شمارہ 233 - صفحہ 49
مصطفی کمال پاشا کے فکری سرچشموں ، خیالات و افکار او رحکومتی اِقدامات کو پیش نظر رکھاجائے تو پاکستان میں 'کمال ازم' کے خلاف مزعومہ مزاحمت اور ردّعمل کا مظاہرہ کرنے والوں کی بات کو محض رجعت پسندی اور دقیانوسی کہہ کر مسترد کرنا مناسب نہ ہوگا۔ اسلامی نظریہ کی بنیاد پر معرضِ وجود میں آنے والی مملکت ِخداداد پاکستان میں اسلام کے علاوہ کسی دوسرے 'ازم' کی گنجائش نہیں ہے۔ اتاترک ازم فی نفسہٖ سیکولر ازم کی بدترین صورت ہے۔ لہٰذا نظریہ پاکستان اور فکر ِقائد پر یقین کرنے والا کوئی فرد اگر اس سوچ کے خلاف ذہنی تحفظات رکھتا ہے، تو اس کے خدشات بے بنیاد نہیں ہیں ۔ یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مصطفی کمال پاشا کی سوچ، کردار اور مزاج کو سمجھنے کے لئے اس کے معروف ترک سوانح نگار عرفان اورگا کی کتاب 'اتاترک' سے چند اقتباسات پیش کئے جائیں :
''جوانی میں اس نے اپنے انقلابی افکار کے ساتھ ضیاگوک الپ کی تعلیمات کو بھی اچھی طرح جذب کر لیاتھا۔ وہ مغربی روشن خیالی کا بہت بڑا نقیب تھا۔ اس نے ۱۹۰۰ء ہی میں اس خیال کا اظہار کردیا تھا کہ سلطنت ِعثمانیہ کے لئے زوال و انتشار مقدر ہوچکا ہے۔ وہ اکثر کہا کرتا تھا کہ دینی حکومت شخصی حکومت کی وفادار حلیف ہوتی ہے۔ وہ علماء کے اختیارات کو محدود کرنے کے حق میں تھا۔اس نے شریعت کے خاتمہ اور ان قاضیوں کی دینی عدالتوں کی منسوخی کی پرزور وکالت کی تھی جو اسلامی قانون کے شارح و ترجمان ہیں ۔ جنس اس کے لئے مقناطیس کی کشش رکھتی تھی۔ وہ شراب نوشی سے تسکین حاصل کرتا تھا، اس لئے کہ روحانی تسکین کے لئے اس کے اندر نہ خدا کا اعتقاد تھا، نہ زندگی کے بعد موت کا یقین'' (صفحہ ۲۴۶)
مصطفی کمال پاشا کو مغربی تہذیب سے شیفتگی لیکن مذہب اور مذہبی تعلیمات سے شدید نفرت تھی۔ مذہب اور بالخصوص اسلام کے متعلق مصطفی کمال کے نقطہ ٔ نظر اور خیالات کا ذکر کرتے ہوئے عرفان اورگا لکھتا ہے:
''اس نے اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لیا تھا کہ اس کی اصل جنگ مذہب کے خلاف ہے، بچپن سے اس کے نزدیک خدا کی کوئی ضرورت نہیں تھی، وہ صرف اس چیز پر یقین رکھتا تھا جو دیکھنے میں آسکتی تھی، کبھی کبھی وہ آسمان کی طرف مکا اُٹھا کر اشارہ کرتا تھا، اس کا خیال تھا کہ زمانہ ٔ ماضی میں اسلام محض ایک تخریبی طاقت رہا ، اور اس نے ترکی کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ اس نے اس حقیقت کو نظر انداز کر دیا تھا کہ اسلام کی ہی کی عطا کی ہوئی وحدت نے وسیع عثمانی سلطنت کی تعمیر کی تھی۔ اس کو اس آدمی سے سخت نفرت تھی جو تقدیر کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے۔اس کا عقیدہ تھا کہ خدا کا کہیں وجود نہیں اور انسان ہی اپنی تقدیر بناتا ہے۔ اس کا مصمم ارادہ تھا کہ مذہب کو ممنوع قرار دے خواہ اس کے لئے طاقت استعمال کرنی پڑے، خواہ دھوکہ اور فریب سے کام لینا