کتاب: محدث شمارہ 233 - صفحہ 47
سے گفتگو کرتے ہوئے کہی، اس سے ظاہر ہے مہمانوں کی عزت افزائی اور ان سے مروّت کا اظہار مقصود تھا۔
پاکستان میں بعض دینی راہنماؤں کی تنقید کے برعکس مغربی ذرائع ابلاغ، بعض ہندوستانی اخبارات اور پاکستان کے 'لبرل' دانشوروں اور این جی اوز مافیا نے جنرل مشرف صاحب کے مذکورہ بالا بیان پر اپنی مسرت اور پسندیدگی کا اظہار کیا۔ چونکہ مصطفی کمال اتاترک کی حیثیت ایک عسکری ہیرو کے ساتھ ساتھ ایک سیکولر راہنما کی بھی ہے، جس نے ترکی میں اسلامی ثقافت کے مقابلے میں مغربی تہذیب کو رائج کیا، اسی لئے مذہب بیزار 'لبرل' طبقہ کی طرف سے جنرل مشرف کے بیان پر بغلیں بجانا ایک فطری امر تھا، یہ طبقہ ایک اسلامی مملکت میں سیکولر نظریات کے کسی بھی موہوم امکان پر بھی مریضانہ مسرت اندوزی کا اظہار کرتا ہے۔ جنرل مشرف کی طرف سے اپنے آپ کو 'پکا مسلمان' اور پاکستان کو 'اسلامی مملکت' اور قائداعظم کو اپنا راہنما قرار دینے پر پاکستان میں سیکولر ازم کے عملی نفاذ کا خواب دیکھنے والے طبقہ کو جس مایوسی کا اندازہ کرنا پڑا ہوگا، ا س کا اندازہ لگانا مشکل امر نہیں ہے۔
بھارت کا متعصّب ہندو پریس جو پاکستان کو اس کی نظریاتی اساس سے محروم دیکھنا چاہتا ہے، ا س کی توقعات پر بھی، معلوم ہوتا ہے، پانی پھر گیا ہے۔ ہندوستان کا ایک معروف انگریزی اخبار ''دی ٹائمز آف انڈیا'' اپنے اداریے میں لکھتا ہے۔
''یہ توقع کہ جنرل پرویز مشرف اپنے آپ کوترکی کے کمال اتاترک کے نمونہ کے مطابق ڈھالیں گے، بالآخر زمین بوس ہوگئی ہے'' ...جنرل مشرف راہنمائی کے لئے ترکی کے عظیم ریفارمر، جنہوں نے خلافت کا خاتمہ کردیاتھا، کی طرف دیکھنے کی بجائے جنرل ضیاء الحق کی طرف دیکھ رہے ہیں ''۔ (روزنامہ نوائے وقت، لاہور:۷ /نومبر۹۹ء)
بعض مذہبی جماعتوں نے جنرل صاحب کی مذکورہ بالا وضاحت پر اطمینان کااظہا رکیا ہے۔ جماعت اسلامی سے الگ ہو کر تحریک ِاسلامی کے نام سے کام کرنے والی جماعت کے ترجمان پندرہ روزہ 'منشور' نے اپنے اداریے میں یوں اظہار ِخیال کیا ہے:
''ہمارے چیف ایگزیکٹو خاصا عرصہ ترکی میں قیام پذیر رہے ہیں ، اس لئے انہوں نے اتاترک کا تذکرہ اپنی گفتگو میں کردیا، ورنہ وہ تحریک ِپاکستان اور قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کے نظریات اور پھر پاکستان کی ملت ِاسلامیہ کے جذبات سے بے خبر نہیں ہیں ، جنرل پرویز نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ وہ پاکستان میں قائداعظم کے نظریات ہی کے قیام پرمشتمل قانون اور نظام زندگی قائم رکھنا اور پاکستان کو قائداعظم کا پاکستان ہی دیکھنا چاہتے ہیں ، مصطفی کمال کا ترکی نہیں بنانا چاہتے'' (منشور:۱۶ تا ۳۰ /نومبر ۱۹۹۹ء)