کتاب: محدث شمارہ 233 - صفحہ 46
عالم اسلام عطاء اللہ صدیقی
مصطفٰی کمال اتاترک اور اسلام
۱۲/ اکتوبر کو غیر معمولی حالات میں عنانِ اقتدار سنبھالنے کے بعد جنرل مشرف کو پہلی مرتبہ جس بات پر مخالفانہ بیانات کا سامنا کرنا پڑا، وہ میاں نوازشریف کی حکومت کی معزولی کا معاملہ نہیں تھا، میاں صاحب کی حکومت کے خاتمہ پر سکوت تو خود جنرل پرویز مشرف کے لئے بھی ایک تعجب انگیز امر تھا۔ جنرل صاحب کو اپنے جس بیان پر مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، ان کا وہ بیان تھا جس میں انہوں نے جدید ترکی کے معمار کمال اتاترک کو اپنا ہیرو قرار دیا، جماعت ِاسلامی کے امیر قاضی حسین احمد نے اس بیان کے خلاف اپنا ردّ ِعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ''پاکستان میں کمال ازم کے نفاذ کے خلاف سخت مزاحمت کی جائے گی'' ۔دیگر مذہبی راہنماؤں اور سیاستدانوں نے بھی اسکے متعلق اپنے ذہنی تحفظات کا اظہار کیا۔
جنرل صاحب کے بعد کے وضاحتی بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا مقصود وہ نہ تھا جو بالعموم سمجھا گیا۔ ۱۴ /نومبر کو اخبارات میں شائع ہونے والے بیان میں انہوں نے اپنے پہلے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا
''کمال اتاترک یقینا ترکوں کے ہیرو ہیں جو جدید ترکی کے معمار ہیں اور جنہوں نے بیمار یورپ میں سے ترکی کو ایک ترقی یافتہ ملک بنا کر نکالا، تاہم ہمارے راہنما او ربابائے قوم، قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ ہیں جن کے اصولوں پر کاربند رہنے کے ہم پابند ہیں ۔ جنرل پرویز مشرف نے کہا کہ میں اتاترک کا بے حد احترام کرتا ہوں لیکن ہمارے ملک کا اصول ترکی سے مختلف بھی ہوسکتا ہے۔بہرحال ہم قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے بتائے ہوئے اصولوں کے پابند ہیں ۔ انہوں نے یہ بات ترکی کے ایک ٹیلی ویژن نیٹ ورک کو انٹرویو دیتے ہوئے اس سوال کے جواب میں کہی کہ آپ نے اپنی پہلی تقریر میں کمال اتاترک کا خاص طور پر تذکرہ کیسے کیا؟'' (نوائے وقت، ۱۴/ نومبر)
ایک اور اخباری بیان میں جنرل پرویز مشرف نے بے حد صاف لفظوں میں کہا کہ
''میں پکا مسلمان ہوں او رپاکستان ایک اسلامی مملکت ہے''
قطر کے سرکاری دورے کے دوران صحافیوں کے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے اپنے بیان کا پس منظر بیان کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کمال اتاترک کو ہیرو کہنے کی بات ترکی کے ایک وفد