کتاب: محدث شمارہ 233 - صفحہ 3
اعتراف کیا ہے۔ حافظ عبدالقادر روپڑی رحمہ اللہ کی رِحلت سے ایک بات بہت واضح ہو کر سامنے آتی ہے اور اس حقیقت کو ہم فانی انسانوں کو ہر لمحہ اپنے پیش نظر رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے حقیقی عزت کا خزانہ صرف انہی لوگوں کے لیے خاص کر رکھا ہے جو اس کے دین قیم کی حبل متین کو مستحکم بناتے ہیں، اس پر اپنی صحت و جان داؤ پر لگاتے ہیں اور اس کی اشاعت میں اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کر دیتے ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو حافظ عبدالقادر روپڑی کی دینی، ملی اور سیاسی خدمات کا دائرہ پینسٹھ سالوں پر محیط دکھائی دیتا ہے اس اجمال کی تفصیل یوں ہے: ہندوستان میں امرتسر کا علاقہ کئی حیثیتوں سے ممتاز ہے۔ اس ضلع کی تحصیل اَنبالہ کے ایک گاؤں کمیرپور میں آپ 1915ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والدِ گرامی رحیم بخش حافظ عبداللہ محدث روپڑی رحمہ اللہ کے بڑے بھائی تھے۔ بچپن میں ہی والدہ کی وفات ہو جانے کی وجہ سے حافظ اسمٰعیل روپڑی اور عبدالقادر روپڑی کو محدث روپڑی رحمہ اللہ نے اپنی تربیت میں لے لیا۔ گیارہ سال کی عمر میں حفظِ قرآن کی سعادت حاصل کی۔ علوم آلیہ زیادہ تر اپنے چچا حافظ محمد حسین امرتسری اور مولانا قادر بخش پٹیالوی سے پڑھے جب کہ علوم عالیہ کی تحصیل محدث روپڑی رحمہ اللہ سے کی۔ علومِ عقلیہ و نقلیہ سے فراغت کے وقت آپ کی عمر سولہ سال سے زائد نہ ہو گی کہ آپ نے روپڑ اور گردونواح میں دعوتی ذمہ داریوں کو سنبھال لیا۔ اس زمانے میں مسلک اہلحدیث کا معروف جریدہ ’’تنظیم اہلحدیث‘‘ محدث روپڑی رحمہ اللہ کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔ آپ نے نہ صرف اس ہفت روزے کی صحافتی اور تنظیمی ذمہ داریوں میں بھرپور شرکت کی بلکہ خود بھی متعدد اور متنوع مضامین سپردِ قلم کئے۔ آپ کی خوش خطی کی وجہ سے محدث روپڑی کی زیادہ تر تحریریں بھی آپ ہی لکھا کرتے۔ آپ کی ان علمی اور صحافتی خدمات کو الگ سے جمع کرنے کی ضرورت ہے۔ برصغیر میں برطانوی حکمرانوں کے خلاف مسلمانوں کے جذبات ایک تاریخی حقیقت ہیں مگر مسلمانوں میں اہلحدیث مسلک سے تعلق رکھنے والوں نے تحریک مجاہدین کی شکل میں جو قربانیاں دی ہیں، ان کی عظیم داستان کے ورق بالاکوٹ سے ’چمرکند‘ تک ہر جگہ عظمت و عزیمت کے الفاظ سے مزین ہیں۔ 1935ء میں برطانوی حکمرانوں نے برصغیر کو ایک آئین دیا، جس کے تحت 1937ء کے انتخابات میں کانگریس کو پورے ہندوستان میں انتخابی غلبہ حاصل ہوا۔ 1939ء میں مسلمانوں کو اس دوہرے عذاب سے رہائی ملی تو 1940ء میں مسلم لیگ نے الگ اسلامی سلطنت کے حصول کے لیے آئینی مطالبہ ایک قرارداد کی شکل میں پیش کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جس میں نوجوان حافظ عبدالقادر روپڑی رحمہ اللہ کے جذباتِ حریت پورے عروج پر تھے۔