کتاب: محدث شمارہ 233 - صفحہ 28
جواب : پہلی بیوی کے بچوں میں سے ایک غیر شادی شدہ بچے کی وفات کی صورت میں اس کا ایک حقیقی بھائی اور دو حقیقی بہنیں وارث ہیں اور دوسری بیوی کی اولاد کا اس وراثت میں کوئی حصہ نہیں کیونکہ ان کا تعلق میت سے یکطرفہ ہے جبکہ پہلے فریق کا آپس میں تعلق دو طرفہ ہے۔ یعنی ماں اور باپ دونوں کی طرف سے دو قرابتوں والا اُس سے مقدم ہے جس کی صرف ایک قرابت ہے ۔ صحیح بخاری میں حدیث ہے ((ألحقوا الفرائض بأھلھا فما بقي فلأولی رجل ذَکر)) یعنی ''حقدار کو اس کا مقررہ حصہ دے کر باقی میت کے قریب ترین مرد کے لئے ہے'' سوال:ہماری الجھن یہ ہے کہ ہمارے ایک بزرگ کا اکلوتا جوان بیٹا فوت ہونے کے بعد کوئی اولاد نہ ہوئی اوران کی بیوی نے اپنے ہی بھائی کے دو بچے لڑکی اور لڑکا گود لے لیا۔ پڑھایا لکھایا، بچی کی شادی کی گئی، لا علمی یا خوشی سے کاغذات، اَسناد وغیرہ میں ان کی ولدیت اپنے (بزرگ کی) ہی لکھی جاتی رہی۔ اب محسوس ہوا کہ یہ غلط ہوا ہے بچوں کی ولدیت اصل باپ کی طرف ہونی چاہئے تھی۔ جواب : سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر ۵ کے مطابق بچوں کا انتساب حقیقی باپ کی طرف ہونا چاہئے۔ لیکن مفسر قتادہ رحمۃ اللہ علیہ نے کہا: اگر اصلی باپ معروف ومعلوم ہو تو دوسرے کی طرف نسبت کا کوئی حرج نہیں ۔ قرآنی حکم نازل ہونے کے بعد بھی حضرت مقداد کی نسبت حقیقی باپ عمرو کے بجائے نسبت ِتبنی (لے پالک) الاسود ہی جاری و ساری رہی۔ کتب ِاحادیث میں بلا نکیر محدثین نے اس کا استعمال کیا ہے۔ بطورِ مثال ملاحظہ ہو (صحیح بخاری کتاب النکاح ،الأکفاء في الدین) حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : واشتھرت شھرتہ بإبن الأسود، الإصابۃ (۳/۴۳۴) اس کی شہرت ابن اسود کے ساتھ ہی رہی۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شہرت کی بنا پر موجودہ انتساب کو باقی رکھا جاسکتا ہے لیکن اصل یہی ہے کہ حقیقی باپ کی طرف نسبت کی جائے جس طرح نص قرآنی میں ہے سوال: کیا عورت بغیر شرعی عذر کے حسن و جمال کے لئے بال کٹوا سکتی ہے؟ بعض لوگ عورت کے بال کٹوانے کے حق میں ایک حدیث ِصحیح مسلم اور ایک حدیث ِابوداود پیش کرتے ہیں ۔ کیا ان کا یہ استدلال درست ہے؟ جواب: بلا کسی معقول عذر کے عورت کو سر کے بال نہیں کٹوانے چاہئیں ۔ عورت کا اصل حسن و جمال اسی میں ہے جیسا کہ عربوں کے اَشعار سے یہ بات عیاں ہے( تفسیر اضواء البیان :۵/۵۹۸) صحیح مسلم وغیرہ کی روایت اس باب میں واضح نہیں ۔ ممکن ہے کہ یہ ازواجِ مطہرات کا خاصہ ہو جس طرح کہ نووی نے شرح مسلم میں تصریح کی ہے یا مقصود اس سے صرف جوڑا کرنا ہو جس طرح کہ صاحب المرعاۃ نے تو جیہ کی ہے ۔اس موضوع پر میرا ایک تفصیلی فتویٰ الاعتصام میں شائع شدہ ہے اس طرف مراجعت نہایت مفید ہے۔