کتاب: محدث شمارہ 233 - صفحہ 25
ص۴۶۵ طبعہ دارعالم الکتاب)۔قصہ ابی بکر ایک مخصوص واقعہ ہے بخلاف ابو مسعود کی حدیث کے ، اس میں ایک قاعدہ کلیہ بیان ہوا ہے جو عموم کا فائدہ دیتا ہے ۔ اَقْرَأ (زیادہ خوبصورت تلاوت کرنے والے)پر علم والے کو مقدم کرنے کا استدلال درست نہیں ۔تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو مرعاۃ المفاتیح کتاب الصلٰوۃ ، باب الامامہ ، الفصل الاول : ج 4، ص 45، طبع سرگودھا۔ سوال:حدیث مُسیٔ الصلوٰۃ علماء میں معروف ہے جس میں ہے کہ ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نماز پڑھی پھر آکر سلام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا : نماز پڑھو، تم نے نماز نہیں پڑھی۔ تین یا چار مرتبہ نماز پڑھنے کے بعد اس نے سوال کیا کہ مجھے نماز سکھائیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز سکھاتے ہوئے فرمایا پھر پڑھو ''مَا تَیَسَّر من القرآن'' ... بعض لوگ اس کے بجائے ''فَاقْرَء وْا اُمَّ الْقُرْآنِ''کے الفاظ بتاتے ہیں ۔ براہِ مہربانی ان الفاظ کی فنی حیثیت ذکر کریں اور اس حدیث کا مکمل متن مع حوالہ تحریر فرمائیں ؟ جواب:سنن ابوداود میں رفاعہ کی حدیث میں ہے ((ثُمّ اقرأ بأمّ القرآن وبما شاء اللّٰہ أن تقرأ)) اسی طرح مسند احمد او رصحیح ابن حبان میں ہے: ((إقرأ بأمّ القرآن ثم اقرأ بما شئت)) (بحوالہ مرعاۃ المفاتیح ۱/۵۲۳) اور علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جزء القرآۃ میں امام بخاری میں سند صحیح کے ساتھ وارد ہے کہ آپ نے صاحب ِمُسیٔ الصلوٰۃ کوحکم دیا تھا کہ نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھے (صفۃ الصلاۃ: ص۶۹) ۔ یہ حدیث سنن ابو داود میں مکمل تفصیل سے ہے : ((قال إذا قُمتَ فتَوَجَّهتَ إلی القبلةِ فکبِّرْ ثمّ اقْرَأ بِأمِّ القرآن)) (کتاب الصلاة : باب من لایقیم صلبه في الرکوع) سوال:اَحناف سورۂ اعراف کی آیت ﴿وَإِذا قُرِ‌ئَ القُر‌ءانُ﴾ سے فاتحہ خلف الامام نہ پڑھنے کی دلیل لیتے تھے، اسی طرح سورۃ الاحقاف کی آیت ﴿وَإِذْ صَرَفْنَا إِلَيْكَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُونَ الْقُرْآنَ فَلَمَّا حَضَرُوهُ قَالُوا أَنصِتُوا﴾... سورة الاحقاف" اور سورۃ القیامہ کی آیت ﴿لا تُحَرِّ‌ك بِهِ لِسانَكَ لِتَعجَلَ بِهِ 16 ﴾... سورة القيامة" سے بھی کچھ حنفی مولوی یہی دلیل لینے لگے ہیں ۔ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ رضی اللہ عنہم ، تابعین رحمۃ اللہ علیہ یا کسی مفسر نے ان آیات کی اس طرح تفسیر کی ہے؟ جواب:مذکورہ بالا آیاتِ قرآنی کا تعلق سورۂ فاتحہ کے علاوہ سے ہے کیونکہ نبی کرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی قرآن کی مُبیّن (وضاحت کرنے والی) ہے ۔صحیح احادیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ''سورۃ فاتحہ کے بغیر کوئی نمازنہیں '' اور قرآن میں ہے﴿وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ﴾... سورة الحشر ''تمہارے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہترین نمونہ ہیں '' کا تقاضا بھی یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے سامنے سر جھکا دیا جائے اور اپنی عقل و فکر کو نبوت کی روشنی کے تابع کردیا جائے، سلامتی اسی میں ہے۔ تفسیر بالرائے کے بارے میں عذاب کی سخت تہدید اور وعید وارد ہے۔ سوال:سنن نسائی کی کتاب الافتتاح کے باب النهي عن مبادرة الإمام بالانصراف من الصلوٰة میں اس حدیث کا مفہوم کیا ہے کہ جب امام سلام کے بعد فارغ ہو کر مقتدیوں کی طرف