کتاب: محدث شمارہ 233 - صفحہ 18
طرف رہنمائی کی جو دنیاوی زندگی کے لئے نافع ہیں ۔ اور بطورِ خاص اپنے اولیا ء کا مربی ہے ، یعنی ایمان کے ذریعہ اُن کی تربیت کرتا ہے ، انہیں ایمان کی توفیق دیتا ہے اور صاحب کمال بناتا ہے ۔ اور اُن رکاوٹوں کو دور کرتا ہے ، جو اُس کے اور اُن اولیاء کے درمیان حائل ہوسکتے ہیں ۔ یعنی اُنہیں ہر خیر کی توفیق دیتا ہے اور ہر شر سے محفوظ رکھتا ہے ۔ اور غالباً یہی راز ہے کہ انبیاء کرام کی تمام دعائیں کلمہ الرَّب سے شروع ہوتی ہیں ۔ اس لئے کہ اُن کے تمام مطالب اللہ کی ربوبیت ِخاص کے ضمن میں آتے ہیں ۔ اس تمام تر تفصیل کا خلاصہ یہ ہے کہ صفت ِ خلق وتدبیرِعالم اور صفت ِ کمالِ بے نیازی وتمامِ نعمت میں اللہ تعالیٰ منفرد ہے اور آسمان وزمین کی تمام مخلوق ہراعتبار سے اُس کی محتاج ہے ۔ (3) ان دونوں صفاتِ الٰہیہ پر کلام بسم اللہ کی تفسیر کے ضمن میں گذر چکا ، یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ دونوں صفتیں چونکہ اللہ کی رحمت پر دلالت کرتی ہیں ،اس لئے بندے کے لئے ان میں ایک طرح کی ترغیب ہے ۔ جبکہ صفت'ربوبیت' میں ترہیب وتخویف ہے ۔ اس سورت میں اللہ نے ترہیب وتر غیب دونوں کو جمع کردیا ہے، تاکہ بندہ اپنے معبود کی اطاعت وبندگی کی طرف زیادہ راغب ہو ، اور اس کا اپنی زندگی میں زیادہ اہتمام کرے۔ (4) اللہ تعالیٰ جس طرح قیامت کے دن کا مالک ہے ، اُسی طرح وہ دوسرے تمام دنوں کا مالک ہے ۔ یہاں قیامت کے دن کا ذکر بالخصوص اس لئے آیا کہ اُس دن تمام مخلوقات کی بادشاہت ختم ہوجائے گی ۔ تمام شاہانِ دنیا اور ان کی رعایا ، تمام آزاد وغلام اور چھوٹے بڑے سب برابر ہوجائیں گے اور صرف ایک اللہ کی ملوکیت وبادشاہت باقی رہے گی ، سبھی اُس کے جلال وجبروت کے سامنے سرنگوں ہوں گے، اس کی جنت کے امیدوار اور اس کے عذاب سے خائف ہوں گے ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿ لِّمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ۖ لِلَّـهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ ﴾... سورة غافر''قیامت کے دن اللہ پوچھے گا : آج کس کی بادشاہت ہے ۔ پھر خود ہی جواب دے گا : صرف اللہ کی ، جو ایک ہے اور قہار ہے'' قیامت کے دن کويوم الدين اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ اعمال کے جزا کا دن ہوگا ، جس نے اِس دنیا میں جیسا کیا ہوگا ، اُسے اُس کا بدلہ مل کر رہے گا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿ يَوْمَئِذٍ تُعْرَضُونَ لَا تَخْفَىٰ مِنكُمْ خَافِيَةٌ ﴿18﴾... سورة الحاقة" جس دن تم لوگ اللہ کے سامنے پیش کئے جاؤگے ، اُس دن تم سے کوئی چیز مخفی نہ رہے گی 'عبادت' کا لغوی معنی ہے : ذلت اور خشوع وخضوع ۔ شریعت ِ اسلامیہ میں عبادت ہر اُس عمل کو کہتے ہیں ، جس میں اللہ کے لئے کمالِ محبت کے ساتھ انتہائی درجہ کا خشوع وخضوع اور خوف شامل ہو ۔ 'استعانت' کا مفہوم یہ ہے کہ حصولِ نفع اور دفع ضرر کے لئے اللہ تعالیٰ پر پورا پورا بھروسہ کیا