کتاب: محدث شمارہ 233 - صفحہ 14
مصحف میں کوئی بھی ایسی چیز نہ لکھی گئی جو قرآنِ کریم کا حصہ نہ تھی ۔ نہ سورتوں کے نام لکھے گئے ، نہ ہی آیتوں کی تعداد اور نہ کلمہ ٔ آمین ۔ تاکہ کوئی شخص غیرقرآن کو قرآن نہ سمجھ لے ، اِس تمام تر احتیاط کے باوجود 'بسم اللہ' صرف ایک سورت کے علاوہ تمام سورتوں کی ابتدا میں لکھی گئی ، جن کی تعداد ایک سو تیرہ ہے ۔ یہ اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ'بسم اللہ' سورۂ نمل کی ایک آیت کا بعض حصہ ہونے کے علاوہ ایک مستقل آیت بھی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہر سورت کی ابتدا سے پہلے اُترا کرتی تھی ۔ اور اسی کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جان پاتے تھے کہ ایک سورت ختم ہوگئی ، اب دوسری سورت کی ابتدا ہونے والی ہے ۔ اس کی تائیدحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت سے ہوتی ہے کہ '' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سورت کی انتہا اور دوسری سورت کی ابتدا اُس وقت تک نہیں جانتے تھے جب تک '' بسم اللہ الرحمن الرحیم'' نئے سرے سے نازل نہیں ہوتی تھی ''۔ اس حدیث کو ابوداود رحمۃ اللہ علیہ اور حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے ۔
یہاں تک یہ بات ثابت ہوگئی کہ ' بسم اللہ' قرآنِ کریم کی ایک آیت ہے ۔ اِس کے بعد علماءِکرام کا اختلاف رہا ہے ۔ کچھ لوگوں نے کہا ہے کہ سورۂ برا ء ت کے علاوہ یہ ہر سورت کی ایک آیت ہے، تو گویا سورۂ فاتحہ کی بھی ایک آیت ہے ۔ امام مالک ، ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب کہتے ہیں کہ یہ نہ تو سورۂ فاتحہ کی آیت ہے نہ ہی کسی دوسری سورت کی ۔ داود رحمۃ اللہ علیہ ظاہری کا خیال ہے کہ ہرسورت کی ابتدا میں یہ ایک مستقل آیت ہے، لیکن کسی سورت کا حصہ نہیں ہے۔
بسم اللہ بآوازِ بلند پڑھی جائے یا آہستہ ؟
اس اختلاف کی وجہ سے جہری نمازوں میں سورۂ فاتحہ سے پہلے بسم اللہ کوبآوازِ بلندپڑھنے کے بارے میں ائمہ کرام کا اختلاف ہوگیا ہے ۔ جو حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سورۂ فاتحہ کی ایک آیت نہیں ، یہ ایک مستقل آیت ہے ، کسی سورت کی آیت نہیں ، وہ کہتے ہیں کہ جہری نمازوں میں بسم اللہ آہستہ پڑھی جائے گی۔ اور جو حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ سورۂ برا ء ت کے علاوہ ہر سورت کی آیت ہے ۔ اُن میں امام شافعی اسے جہری نمازوں میں سورۂ فاتحہ اور ہر سورت کے پہلے بآوازِ بلند پڑھنے کے قائل ہیں ۔ ان لوگوں نے ابوہریرہ ، ابن عباس ،اور اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہم وغیرہم سے مروی احادیث سے استدلال کیا ہے، جن میں اس بات کی صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۂ فاتحہ سے پہلے' بسم اللہ' بآوازِ بلند پڑھی ( دیکھئے تفسیرابن کثیروفتح القدیر)
لیکن خلفاءِ اربعہ ، احمد بن حنبل اور سفیان ثوری وغیرہم کی رائے ہے کہ نماز میں بسم اللہ بآوازِ بلند نہیں پڑھی جائے گی ۔ان لوگوں نے امام مسلم کی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کردہ حدیث سے استدلال کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں قراء ت ، الحمد للہ ربّ العالمین سے شروع کرتے تھے ۔ اسی