کتاب: محدث شمارہ 23 - صفحہ 9
ہیں۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے ایک ’’فقیہ شہر‘‘ سے لے کر ایک رندے باوہ خواہ کجکلاہ تک کون کون سے حسیں چہرے بے نقاب ہو جائیں گے۔ کاش! کوئی بندۂ خدا اُٹھے اور یہ فریضہ انجام دے تاکہ دیا اپنی آنکھوں سے یہ تماشا دیکھ لے کہ ’’چور چور‘‘ کا شور مچانے والوں میں خود کتنے چور ہیں؟ افغانستان سے ایک ’’بابا‘‘ آئے ہیں، کہاں کہاں سے گھوم پھر کر آئے ہیں؟ بھارت کی آنکھوں کا تارا کیوں بنے رہے؟ افغانستان کی سرزمین ان کو ’’پاک دیس‘‘ سے زیادہ راس آئی؟ یہ کچھ ایسے سوالات ہیں، جو دل ہی دل میں اُٹھتے ہیں اور بیٹھ جاتے ہیں۔ ؎ پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا؟ آتے ہی عدم تشدد کا درس دینے کو اُٹھ دوڑے مگر عدمِ تشدد کے اسی ماحول سے جب کبھی آواز بلند ہوئی تو یہی سنائی دیا کہ ’’ہم گولی کی زبان میں بھی بات کرنا جانتے ہیں۔‘‘ ؎ رونے سے اور عشق میں بے باک ہو گئے دھوئے گئے ہم اتنے کہ بس پاک ہو گئے طرفین نے شور مچا رکھا ہے، حزبِ اختلاف کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی ملک کو آئین نہیں دیتی، وہ کہتے ہیں اپوزیشن لیتی ہی نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی جو آئین دیتی ہے وہ ملک کے لئے نہیں بلکہ اپنے اقتدار کی عمر درازی کے لئے دیتی ہے اور اپوزیشن جو مانگتی ہے وہ ملک اور قوم کے لئے مانگتی ہے۔ فرق صرف تعبیر کا نہیں، نیتوں کا بھی ہے۔ بہرحال صورتِ حال کچھ بھی ہو ملک کو اب آئین مل جانا چاہئے۔ حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کی اس توتکار کے درمیان کہیں ’’آئین کی مرغی‘‘ حرام نہ ہو جائے اور یہ بہت بڑا المیہ ہو گا۔ شورشؔ میاں چلا اُٹھے ہیں کہ اب بیشتر صحافی بھی حکومت کے چوبداروں میں ہو گئے۔ جو قوم