کتاب: محدث شمارہ 23 - صفحہ 8
کرتے ہیں، علیحدگی کی دھمکیاں دیتے ہیں اور حکمران پارٹی کو کھرکھری سناتے رہتے ہیں، لیکن صدر محترم سن کر یوں چپ سادھ لیتے ہیں جیسے انہوں نے کچھ سنا ہی نہیں لیکن چوتھا صوبہ پنجاب ایسا بد نصیب ہے کہ جب کہیں موقع ملتا ہے، صدر بھٹو اور ان کے کارندے دوسروں کا غصہ بھی اس پر نکال لیتے ہیں۔ دو بھائیوں کا ایک قصہ مشہور ہے کہ ایک تو بت کو مانتا اور اس کی پوجا کرتا تھا لیکن دوسرا بہت گستاخ تھا اور اس کی ذرہ برابر پرواہ نہیں کیا کرتا تھا۔ ایک دِن بت نے اپنے ماننے والے سے کہا کہ اپنے بھائی کو میری بے ادبی کرنے سے باز رکھو ورنہ میں تمہاری ٹانگ توڑ دوں گا۔ وفادار پجاری بولا: حجور میں تو بے قصور ہوں، جو قصور وار ہے آپ اس کی ٹانگ توڑیں میری کیوں توڑتے ہیں؟ بت بولا: وہ تو مجھے مانتا ہی نہیں۔ اس لئے اس سے گلہ نہیں لیکن تم تو مجھے مانتے ہوں لہٰذا میں تو تمہاری ہی ٹانگ توڑ سکتا ہوں۔ ’’قومی اسمبلی کے نائب قائد ایوان اور مرکزی وزیرِ صحت شیخ محمد رشید نے کہا ہے کہ قومیائے جانے والی جائیداد اور دیگر ذرائع پیداوار کے جائز یا ناجزئ ہونے یا معاوضہ کی جانچ پڑتال کر کے تشخیص کرنے کے اختیارات ہائی کورٹ یا دیگر عدالتوں کو دینے سے حکومت کا اختیار غیر مؤثر ہو کر رہ جائے گا۔‘‘ (وفاق۔ ۲۲ جنوری) عدالتوں کے سلسلے میں وزیرِ صحت کے یہ اندیشے اور ریمارک محتاط نہیں ہیں، اس کے علاوہ اس کے یہ معنے ہیں کہ حکومت قانون اور آئین کی راہ اختیار کرنا نہیں چاہتی۔ عقل بڑی کہ بھینس؟ گویا کہ اربابِ اختیار عقل و ہوش سے کام لینے کے بجائے دھونس سے کام لینے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اگر یہ اندیشہ ہو کہ حزاب اقتدار اسے حربہ کے طور پر مخالف جماعتوں اور افراد کے خلاف استعمال کریں گے تو ہم دعویٰ سے یہ کہتے ہیں کہ جائیدادوں کے سلسلے میں اتنے بڑے اقدام کی ان سے قطعاً کوئی توقع نہیں ہے۔ ورنہ سب سے پہلے ان کو اپنے معنوی ’’مورثِ اعلیٰ‘‘ سے شروع کرنا پڑے گا۔ بہتر یہ ہے کہ اس شق میں یہ اضافہ بھی کیا جائے کہ جن خاندانوں یا افراد کو انگریزوں نے یا ان سے پہلے یا ان کے بعد کسی دوسرے کجکلاہ نے ملک دشمنی یا غلط وفاداری کے صلے میں منقولہ یا غیر منقولہ جو جتنی وار جیسی کچھ جائیداد دی ہو وہ پوری چھان پھٹک کے بعد ان سے چھین لی جائے۔ اس کے بعد ہم دیکھیں گے کہ یہ کلہاڑا کہاں سے آغازِ کار کرتا ہے اور اس کے کیا نتائج برآمد ہوتے