کتاب: محدث شمارہ 23 - صفحہ 7
جس میں قاضی موصوف نے قانون کے نفاذ میں کوئی تامل نہ کیا حالانکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ خلیفۂ وقت تھے۔ اگر ہمارے حکام بھی اس روش پر چل نکلیں تو ہر دَور کے ارباب اقتدار بھی کچھ سوچ کر ہی قدم اُٹھایا کریں۔ بہرحال حکام کو قانون سے بغاوت کر کے حکمرانوں کی ذاتی ’’جی حضوری‘‘ سے کچھ زیادہ فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔ بشرطیکہ یہ بات ان کی سمجھ میں آجائے۔ کہتے ہیں درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے۔ اگر یہ بات صحیح ہے (اور صحیح نہ ہونے کی کوئی وجہ بھی نہیں ہے) تو موجودہ حکمرانوں کے عہد میں غنڈہ گردی اور دھاندلی نے جتنے اور جیسے کچھ بال و پر نکالے ہیں وہ پیپلز پارٹی کے سمجھنے کے لئے کافی ہے۔ اربابِ اختیار خود ہی مجرموں کی سرپرستی کرتے ہیں یا حکومت پُرامن شہریوں کو عزت اور جان و مال کا تحفظ دینے میں ناکام رہی ہے۔ بہرحال صورت جو بھی ہو یہ اس امر کے ثبوت کے لئے کافی ہے کہ یہ حکمرانی کے اہل نہیں ہیں۔ حال ہی میں دن دہاڑے گوجرانوالہ کے بارونق اور بھرے بازار میں پستولوں سے مسلح ملزموں نے اندھا دھند فائرنگ کر کے چار افراد کو شدید زخمی کر دیا اور برتوں کی مشہور دکانوں سے ہزاروں روپے کی نقدی لوٹ کر فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے، ملزموں نے برتنوں کے دکانداروں کو گالیاں دیں، جان سے مار دینے کی دھمکیاں دیں اور بھاگتے ہوئے ایک ٹیکسی ڈرائیور کو زخمی کر کے اس سے ٹیکسی چھین کر بھاگ گئے۔ جس سے علاقہ میں اتنا خوف و ہراس پھیلا کہ علاقہ بھر میں راہ گیروں نے زمین پر لیٹ کر جان بچائی۔ (وفاق ۲۲/ جنوری) ہم حیران ہیں کہ گورنر اور صدر سے لے کر پیپلز پارٹی کے ایک رضار کار تک، جب بولتے ہیں تو مخالف سیاسی رہنماؤں اور جماعتوں کو ’’خون کی ندیاں‘‘ تک بہا دینے کی دھمکیاں دے ڈالتے ہیں بلکہ ان سے جیلیں بھی بھر دیتے ہیں لیکن ان مٹھی بھر سماج دشمن عناصر کے سلسلہ میں انہوں نے یوں چپ سادھ رکھی ہے، جیسے یہاں کچھ ہوا ہی نہیں۔ کیا اربابِ اختیار صرف پر امن شہریوں کو دبانا جانتے ہیں یا مجرموں کی ان دھاندلیوں کا کچھ علاج بھی ان کے پاس ہے؟ مغربی پاکستان میں چار صوبے ہیں جن میں سے تین وہ ہیں جو آئے دن ’’گولی‘‘ کی زبان میں بات