کتاب: محدث شمارہ 23 - صفحہ 44
دیوار بن کر کھڑے ہو سکتے ہیں کہ ان سے ٹکرانے والی قوتیں پاش پاش ہو جائیں۔ اگر آج بھی شمعِ توحید کے پروانے لَا اِلٰهَ کا عقیدہ پختہ کر لیں اور ’’نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر‘‘ اپنے تمام اختلافات کو دفن کر کے محبت و اخوت کے پھریرے لہراتے ہوئے شانہ بشانہ کھڑے ہو جائیں تو دنیا کی کسی قوم میں یہ طاقت نہیں کہ وہ ہم پر مسلط ہو جائے۔ دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں ہمارے آستانوں پر جُبّہ سائی کرنے پر مجبور ہوں گی۔ پھر یہودیوں کی کیا مجال کہ وہ آنکھ اُٹھا کر بھی مصر کی طرف دیکھیں! بھارت میں کہاں جرأت کہ ہماری سرحدوں کے پاس بھی پھٹک جائے، اسرائیلیوں کا کیا حوصلہ کہ وہ بیت المقدس کو اپنے ناپاک قدموں تلے روندیں۔
آج جب کہ مسجد اقصےٰ سے اُٹھنے والے دھوئیں نے مسلمانوں کی آہوں میں آگ بھر دی ہے۔ بیت المقدس کی سرزمین حرم کے پاسبانوں کو پکار رہی ہے کہ اے اہلِ وفا! تم کہاں ہو؟ آؤ اور میری حرمت کو پامال کرنے والوں کو نیست و نابود کر دو۔ تو دنیائے اسلام کو وقت کے چیلنج کو قبول کرتے ہوئے اتحاد و یگانگت کی راہ پر گامزن ہو جانا چاہئے اور حرم کے دشمنوں کی گھناؤنی سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے ہمیں ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جانا چاہئے۔
نعتِ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم
خواجہ عبد المنان رازؔ
دیارِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم تیری فضا ہے کتنی نورانی!! مہ و انجم سے دلکش ہے ترے ذرّوں کی تابانی
سلام ا پر درود ان پر، درود ان پر سلام ان پر کہ جن کے فیض نے بخشا ہے مجھ کو نورِ ایمانی
من از ایں بحث می ترسم کہ او خاکیست یا نوری مقامِ مصطفےٰ، واعظ! نہ من دانم نہ تودانی!
حدیثِ مصطفےٰ سے جب کسی نے رہنمائی لی، ہوئی آساں ہر اک مشکل ہوا عقدہ ہر اک یانی
مرا ایمان محکم ہے کہ دنیا اک جہنم ہے کہ جب تک آ نہیں جاتا یہاں دستورِ قرآنی
وہ ہیں ختمِ رسل ختمِ نبوت شان ہے ان کی یہی شانِ نبوت ہے ہمارا جزوِ ایمانی
تبسم لب پہ ہوتا تھا کہ تارے جھلملاتے تھے زباں پر بات ہوتی تھی کہ ہوتی تھی گل افشانی
ہے اسوہ اور سیرت ان کی تفسیرِ کلام اللہ بجز اس کے نہیں اے راز ممکن کچھ ثنا خوانی
خدایا کر دے روشن میرا سینہ نورِ ایماں سے
کہ ان کے روبرو جا کر نہ ہو مجھ کو پشیمانی!