کتاب: محدث شمارہ 23 - صفحہ 43
پہنچی اور دنیا میں علم و ادب کی شمع بردار بن گئی۔ اس کے ہاں بندہ و آقا کی تمیز بے معنی ہو گئی۔ رنگ و نسل اور حسب و نسب کا امتیاز مٹ گیا۔ عزت و وقار کا معیار تقوےٰ اور صرف تقوےٰ قرار پایا۔ ؎
نہ افغانیم ونے ترک و تتاریم! چمن زادیم و ازیک شاخساریم
تمیز رنگ و بو برما حرام است کہ ما پروردۂ یک نو بہاریم
آج جب ہم عالمِ اسلام پر نظر ڈالتے ہیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ احساس کی لہریں مجسم سوال بن کر پوچھتی ہیں کہ ’’کیا ہم اسی قوم کے فرزند ہیں جسے ’’خیر الامت‘‘ کے لقب سے سرفراز کیا گیا تھا؟ آج ہماری غیرت و حمیت کو کیا ہوا کہ دوسروں کی دریوزہ گری کو اپنا شعار بنا چکے ہیں؟ دوسروں کی ذہنی غلامی کو اپنی سعادت خیال کرتے ہیں۔‘‘ اور پھر جب کوئی جواب نہیں بن پڑتا تو اقبالؔ کی روح متاعِ کارواں کے لُٹ جانے پر ماتم کناں نظر آتی ہے اور جب اس لُٹ جانے پر بھی ’’کچھ نہ کھویا‘‘ والی حالت طاری ہرتی ہے تو تڑپ اُٹھتی ہے، آہ ؎
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
آج وقت کا تقاضا ہے کہ ہم میں احساسِ زیاں پیدا ہو۔ ہم اپنی لٹی ہوئی متاعِ عزیز کو حاصل کرنے کے لئے سعیٔ پیہم کریں اور اپنی عظمتِ گم گشتہ کے دھندلائے نگینوں کو جلا بخشیں۔ مگر یہ صرف اسی وقت ممکن ہے جب ہم اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں اور اپنے اختلافات کی آگ کو محبت و اخوت کے ٹھنڈے چشموں سے بجھا کر ایک ہو جائیں۔ ہمارے جسم اگرچہ جدا جدا ہوں مگر روح ایک ہو۔ ہمارے دل ہم آہنگ ہو کر دھڑکنے لگیں اور دھڑکنوں کے ساز سے ایک ہی نغمے کی لَے پھوٹے کہ ؎
تبانِ رنگ و خوں کو توڑ کر ملّت میں گم ہو جا
نہ ایرانی رہے باقی، نہ تورانی، نہ افغانی!
اور ہم اس نغمے کی بازگشت میں شاہراہِ حیات پر آگے ہی آگے بڑھتے چلے جائیں تا آں کہ کامیابیاں ہمارے قدم چومنے لگیں۔
اس حقیقت سے کوئی بھی ذی شعور انکار نہیں کر سکا کہ اگر کرۂ ارض پر بسنے والے سر کروڑ مسلمانوں کے دلوں میں وحدتِ ملّی کا احساس اجاگر کر دیا جائے تو وہ آج بھی باطل کے سامنے سیسہ پلائی