کتاب: محدث شمارہ 23 - صفحہ 42
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
جناب ایم۔ اے رحمان
آج ملتِ اسلامیہ اپنی تاریخ کے انتہائی نازک ترین دَور سے گزر رہی ہے۔ طاغوتی طاقتیں اپنے پورے لاؤ لشکر سمیت اسے فہ ہستی سے حرفِ غلط کی طرح مٹا دینے کے لئے صف آراء ہو رہی ہیں۔ آج قومِ رسولِ ہاشمی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرزندوں میں نسلی اور لسانی تعصبات کو ہوا دے کر ان کی ملّی وحدت کے عظیم الشان قصر میں نقب لگانے کی سازشیں کی جا رہی ہیں۔ علاقائی عصبیتوں کو اچھال اچھال کر انہیں ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنایا جا رہا ہے۔
تاریخ کے اس نازک موڑ پر ہمیں سوچنا ہو گا کہ ہمارے اوجِ ثریا سے قعرِ مذلت تک پہنچنے کے کیا اسباب ہیں؟ ہم جو کبھی رہروانِ قافلۂ حجاز تھے اب بھٹکے ہوئے آہو کی طرح مارے مارے کیوں پھر رہے ہیں؟ ان سوالات کے جوابات کے لئے تاریخِ عالم پر ایک اچٹتی ہوئی نگاہ تو ڈالیے۔ ہمیں یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں نظر آئے گی کہ جو قومیں تشکک و افتراق کا شکار ہو گئیں، ان کی عظمت کا سورج گہنا گیا، محکومی ان کی قسمت میں لکھ دی گئی اور زوال ان کا مقدر ٹھہرا۔ خلافتِ عباسیہ کا شیرازہ منتشر ہونے کی دیر تھی کہ ہلاکو خاں نے اس کی بنیادوں کو اکھاڑ کر رکھ دیا۔ مغلیہ سلطنت میں انتشار کی ہوا کیا چلی، برطانوی سامراج نے اسے اپنے آہنی شکنجے میں جکڑ کر تیموری جاہ و جلال کی ٹمٹماتی ہوئی شمع ہی گُل کر دی؛۔
لیکن مقامِ افسوس ہے کہ آج مسلمانانِ عالم تاریخ کے ان عبرت انگیز مرقعوں سے کوئی سبق نہیں لے رہے۔ ان کی موجودہ پستی اور بے بسی کا سبب یہی ہے کہ وہ اس سرمدی پیغام کو بھول رہے ہیں جس نے انہیں محبت و اخوت کے ابدی رشتوں میں جکڑ دیا تھا اور انہیں ایک ہی زنجیر کی مختلف کڑیوں کی صورت میں پرو دیا تھا۔ چشمِ فلک گواہ ہے کہ چودہ سو برس قبل صحرائے عرب کی تپتی ہوئی ریت سے ایک قوم اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ کا سرمدی پیغام لے کر بگولے کی طرح اُٹھی اور طوفان بن کر پوری دنیا پر چھا گئی۔ وہ جہالت کی اتھاہ تاریکیوں سے نکل کر تہذیب و تمدن کے جگمگاتے ایوانوں میں جا