کتاب: محدث شمارہ 23 - صفحہ 41
اور باقی ہے۔‘‘
’’لہٰذا لازم ہے کہ پیش نظر عارصی مفاد کو نظر انداز کر دیا جائے اور انجام کے دائمی مفاد کو پیش رکھا جائے اس لئے کہ اول کے مقابلہ میں آخر ہی کو فوقیت حاصل ہے۔‘‘ (اعلیٰ۔ ضحٰی)
قرآن حکیم اس قسم کے مضامین سے بھرا پڑا ہے لیکن اس کا مدعا ہرگز یہ نہیں ہے کہ قوتِ ناطقہ انسانی، دینی و عقلی صلاحیتیں اور اس کے ترقی پسندانہ رجحانات کو یک قلم معطل سمجھ لیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہی وہ سوال ہے جو اربابِ عقل کی الجھن کا باعث بنا ہوا ہے لیکن یہ الجھن قرآنِ حکیم میں عدم فکر و تدبر کے باعث پیدا ہوتی ہے۔
سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سبطِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم
عبد الرحمٰن عاجزؔ
دلکش تھی دلنواز تھی صورت حسین رضی اللہ عنہ کی شمعِ رہِ خلوص تھی سیرت حسین رضی اللہ عنہ کی
وجد آفریں تھے آپ کے اقوالِ پُرجلال صد رشک آفریں تھی عبادت حسین رضی اللہ عنہ کی
سبطِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم مظہرِ خُلقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے روشن تھی جس سے جلوت و لوت حسین رضی اللہ عنہ کی
کردار میں خیال میں، حسن و جمال میں تصویرِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم تھی شباہت حسین رضی اللہ عنہ کی
تھے فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لال، نواسے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اللہ رے، یہ شانِ قرابت حسین رضی اللہ عنہ کی
رکھے لبِ حسین رضی اللہ عنہ پہ لب آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بخت، یہ شرف، یہ فضیلت حسین رضی اللہ عنہ کی
تاریخ میں رقم ہے، زمانے کو یاد ہے صبرِ حسین رضی اللہ عنہ ، جود و سخاوت حسین رضی اللہ عنہ کی
باطل کے ہر محاذ پہ سینہ سپر رہو اے مومنو! یہی ہے وصیت حسین رضی اللہ عنہ کی
جھکتا نہیں ہے حق کبھی باطل کے سامنے یہ درس دے گئی ہے شہادت حسین رضی اللہ عنہ کی
آتے نہ گر ظہور میں یہ حادثاتِ غم ہوتی عیاں نہ جرأت و عظمت حسین رضی اللہ عنہ کی
جب تک رہے گا دورِ ظلم و جبر دھر میں
عاجزؔ رہے گی دہر کو حاجت حسین رضی اللہ عنہ کی