کتاب: محدث شمارہ 23 - صفحہ 40
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یُّعْجِبُکَ قَوْلُه فِي الْ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَ يُشْھِدُ اللهَ عَلٰي مَا فِيْ قَلْبِه وَھُوَ اَلَدُّ الْخِصَامِ (البقره: 179) یعنی کچھ لوگ ایسے ہیں جو حیاتِ دنیوی کے باب میں ایسی باتیں کرتے ہیں جو تم کو اچھی اور عجیب معلوم ہوتی ہیں اور وہ اپنے دلی خیالات پر اللہ کی قسم کھاتے ہیں۔ حالانکہ در حقیقت وہ سخت جھگڑالو ہیں۔ حاصل کلام یہ ہے کہ قرآن حکیم زندگی برائے دنیا کے تصور سے قطعاً خالی ہے۔ دنیا سے بہرہ ور ہونے کی صرف اسی حد تک ترغیب ہے جس کی منفعت متوجہِ آخرت ہو کیونکہ مال و قوت و اقتدار کا بڑے سے بڑا کارنامہ اگر نجاتِ اخروی سے محرومی کا باعث ہو تو وہ پرکاہ سے زیادہ بے حقیقت ہے۔ کیا کوئی مسلمان اس بات میں شک کر سکتا ہے کہ نانِ جویں پر قناعت کرنے والا اور پیوند پر پیوند لگے ہوئے لباس سے تن ڈھانکنے والا مردِ مومن مزدور اس بادشاہِ ہفت اقلیم سے زیادہ کامیاب عاقبت ہے جس کی تمام زندگی خطائظِ نفسانی اور لذائذِ معصیت کی نذر ہو کر رہ گئی ہو۔ قرآنِ حکیم دنیا کی جن خوبیوں کا خواہش مند اور دعاگو ہونے کی تلقین فرماتا ہے وہ محض وہ ہیں جن کا تعلق حسناتِ آخرت سے ہے۔ مسلمانوں کی عظمت و برتری کا راز بھی اسی میں مخفی ہے۔ یعنی وہ اقدام جو انسان کے اعضاء کو آخرت سے بچاتا ہو دنیوی فلاح و بہبود کا بھی یقینی ذریعہ بن جاتا ہے۔ مصائب و آلامِ دنیا میں سے شاید کوئی ایک مثال بھی ایسی نہیں جس کا سبب احکامِ الٰہیہ سے انحراف نہ ہو۔ اِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّئَاتِ کا بھی یہی مفہوم ہے کہ نیکیاں ہرحال برائیوں کے اثر سے محفوظ رکھتی ہیں۔ قرآن حکیم ہر ایسی کامیابی کو جو فلاح آخرت سے بے نیاز ہو کر حاصل کی جائے قابلِ مذمت و نفرت قرار دیتا ہے بلکہ اس کو کامیابی کی بجائے ناکامی اور خسارے سے عبیر کر رہا ہے اور یہ مذمت بے سبب نہیں ہوتی بلکہ قرآن اپنے عام اسلوب کے مطابق اس کے دلائل بھی بیان کرتا ہے مثلاً: وَااللّٰہ عِنْدَہ حُسْنُ الْمَاٰبِ (آل عمران۔ ع 6) یعنی بہت اچھے معلوم ہوتے ہیں یہ مرغوبات، یہ اولاد، یہ سونے چاندی کے ڈھیر۔ یہ گھوڑے مویشی اور مال و متاع ہر چند کہ انسان کے لئے دلکش ہیں لیکن بہتر ٹھکانہ چاہو تو وہ اللہ کے پاس ہی ہے۔ کیونکہ یہ سب کچھ وہاں بھی ہے اور اس سے بہتر ہے۔ ’’لیکن یاد رکھو کہ یہاں کا تمام کیا کرایا معرضِ تلف میں ہے لیکن جو ار وہاں کا ہے وہ غیر فانی