کتاب: محدث شمارہ 23 - صفحہ 39
یہی وہ تور ہے جو انسان کو ایمان باللہ اور تصور آخرت سے محروم کر دیتا ہے۔ قرآنِ حکیم نے حیاتِ انسانی کی اس بنیادی غلطی سے جابجا تنبیہ فرمائی ہے۔
وَقَالُوْآ اِنْ ھِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوْثِیْنَ (سورۂ انعام)
یعنی گمراہوں کا یہ کہنا ہے کہ یہی دنیوی زندگی ہی سب کچھ ہے۔ اب دوبارہ زندہ ہونا نہیں ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ دینی بصیرت رکھنے والوں سے توبیخاً سوال کرتا ہے:
اَرَضِیْتُمْ بِالْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا مِنَ الْاٰخِرَۃِ (سورہ توبہ: 38)
بات یہ ہے کہ آیا تم آخرت کو نظر انداز کر کے دنیوی زندگی (کے مال و متاع) پر مطمئن ہو کر رہ گئے ہو۔
ان واضح ارشاداتِ الٰہیہ کے باوجود مسلمانوں کے جدید ترقی پسند طبقہ میں جنہوں نے دین سے بیگانگی کی فضا میں پرورش پائی اور انسانی مقصدِ حیات سے بیگانہ ہیں، اقتصادی و صنعتی ترقیات ہی کو زندگی کا ما حصل سمجھتے ہیں، مال و متاع کی روشنی ان کی نگاہوں کو خیرہ کرتی ہے، نئی نئی ایجادات و اختراعات سے حاصل ہونے والے قومی تفوق کو تعجب اور حسرت کی نظروں سے دیکھتے، جاہ و منزلت کے حصول ہی کو حقیقی فوز و فلاح سے تعبیر کرتے اور آخرت کی جنت سے بے نیاز ہو کر دنیا ہی میں جنت کی تلاش کر رہے ہیں۔ یہ کج نگاہی اس وقت اپنے عروج پر پہنچ جاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ یہ اصحاب دنیوی فوز و فلاح ہی کو ایمان اور اسلام کا ثمرہ کہنے لگتے ہیں۔
اقتصاری یا صنعتی پستی:
اور مسلمانوں کی اقتصادی یا صنعتی پستی کو ضعفِ ایمان سے تعبیر کرتے ہیں۔ دنیوی زندگی کے باب میں بعض اوقات یہ لوگ کچھ ایسی باتیں کہتے ہیں جو بظاہر نہایت دلچسپ اور خوشگوار معلوم ہوتی ہیں مثلاً دنیوی فوز و فلاح کے لئے قرآنی تعلیمات اور اسلامی نظریات کو اس طرح پیش کرنا جس سے ظاہر ہو کہ ان کی نگاہوں میں اسلام اور قرآن کی بہت بڑی عظمت ہے اور وہ قرآنی تعلیمات کو ہر جہتی حیثیت سے تمام کامرانیوں اور ترقیات کا دستور العمل سمجھتے ہیں۔ وہ بڑے شدّ و مدّ کے ساتھ اس پر عمل پیرا ہونے کی ترغیب دیتے ہیں لیکن خود بیگانہ عمل ہیں۔ عجب نہیں کہ عہدِ جاہلیت کے اس کردار سے خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی نپٹنا پڑا ہو۔ چنانچہ ایسے خیالات کے غلط نتائج سے اللہ تعالیٰ نے حضور کو آگاہ فرما دیا ہو: