کتاب: محدث شمارہ 23 - صفحہ 38
ایامُ اللہ: ہم کو قرآنی تاریخ میں جس کو ایام اللہ سے تعبیر کیا جاتا ہے جہاں یہ تفصیلات ملتی ہیں وہاں اس دینی و فکری پستی اور دینی بے راہ روی کا بھی ذکر ہے۔ جو عہدِ اضر کے دانش مندوں اور بر خود غلط دانشوروں کا شیوہ ہے۔ سورۂ کہف میں ایسے اشخاص کی مذمت کی گئی ہے جو اپنی تمام مساعی کو حیاتِ دنیوی کے فروغ اور مادی ترقیات کے حاصل کرنے میں صرف کرتے ہیں اور پھر اپنے ان کارناموں پر فخر بھی کرتے ہیں۔ (ع ۱۲) یہاں پر یہ وضاحت ضروری ہے کہ جس قدر لوگ دنیوی کثرتِ مال و متاع و اولاد پر مطمئن ہو کر اسی کو حاصلِ حیات سمجھ بیٹھتے ہیں اُسی قدر وہ بارگاہِ الٰہی میں اپنے اعمال کی جواب دہی کے تصور سے بیگانہ ہیں۔ پھر قرآن یہ بھی کہتا ہے کہ مادی برتری کی جس قدر مساعی کی جاتی ہیں وہ بار آور ضرور ہوتی ہیں اور کوشش کرنے والے اس سے بھرپور فائدہ اُٹھاتے ہیں تاہم حیاتِ دنیوی میں فروغ حاصل کرنے کا یہ انہماک اگر جزائے اعمالِ صالحہ سے بے گانہ کر دے تو سخت خسارے کی جڑ ہے۔ لہٰذا اہلِ ایمان و اہلِ کفر میں اگر مادی تفاوت ہے تو اس سے متاثر نہ ہونا چاہئے۔ کیونکہ لَلْاٰخِرَۃُ اَکْبَرُ دَرَجٰتٍ مدارجِ عالیہ کے اعتبار سے آخرت ہی کو برتری حاصل ہے۔ (بنی اسرائیل۔ ع ۲) پھر ایسے لوگوں کی جو دنیوی ناز و نعم کو بنظرِ استحسان دیکھتے ہیں اور یا وہ لوگ جو آخرت کی کامیابیوں پر دنیوی زندگی کے عیش و آرام کو ترجیح دیتے ہیں مذمت کی گئی ہے۔ مال و جاہ کی دل فریبیوں سے دھوکہ میں آنے دنیوی ترقیات پر اترانے اور غیر مسلم اقوام کی متاع پر للچائی نظر ڈالنے سے بار بار منع کیا گیا ہے بلکہ تفوق یا استحسان کی نگاہوں سے دیکھنا بھی ممنوع ہے۔ مال و متاع کی حقیقت: فَلَا تُعْجِبْکَ اَمْوَالُھُمْ (سورہ توبہ۔ ع ۶) مال و متاع کی ابھرتی ہوئی تمنا کی مذمت بھی ہے۔ قَالَ الَّذِیْنَ یُرِیْدُوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا یٰلَیْتَ لَنَا مِثْلَ مَآ اُوْتِیَ قَارُوْنُ (القصص) یعنی حیات دنیا ہی کو سب کچھ سمجھنے والے کہتے ہیں کہ اے کاش ہمارے پاس قارون کے برابر دولت ہوتی۔ قرآنِ حکیم کی ان تمام تصریحات کا یہ مقصد نہیں ہے کہ انسان دنیوی زندگی اور علم و ہنر کی ترقیات سے کنارہ کش ہو جائے بلکہ اس کا مدعا یہ ہے کہ کوئی مسلمان حصولِ مال و جاہِ دنیوی ہی کو مقصدِ حیات نہ تسلیم کر لے۔