کتاب: محدث شمارہ 23 - صفحہ 37
کا ذکر کیا ہے اور کھول کھول کر ترقی یافتہ اقوام کی تاریخ پر روشنی ڈالی ہے۔ قرآن حکیم بتاتا ہے کہ قومِ عاد نے کہساروں کی بلندیوں پر عظیم الشان اور قابلِ فخر تاریخی اور یادگاری عمارتیں بنائیں اور ایسے مستحکم محل تعمیر کیے جن کے متعلق یہ خیال کیا جاتا تھا کہ وہ کبھی نہیں مٹ سکتے۔ یہی وہ لوگ تھے جو اپنی استحصالی اور جابرانہ قوتوں سے کام لے کر ضعیفوں اور کمزوروں پر ستم ڈھاتے اور یہ خیال کرتے تھے کہ ان پر کبھی کوئی عذاب نہیں آسکتا۔ وہ اپنے ان ترقی پسندانہ اقدامات پر فخر کرتے تھے۔ (سورہ عنکبوت)
جسمانی قوتوں اور صلاحیتیوں کے اعتبار سے بھی وہ تمام جہان کی قوموں میں ممتاز تھے اور کوئی قوم ان کی ہم پلہ نہ تھی۔ (سورہ فجر)
ان ہی کا یہ دعویٰ تھا کہ مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّۃً (ہم سے زیادہ صاحبِ اقتدار کون ہے؟) (حٰم سجدہ)
ان کے بعد ایسی ہی تعمیراتی صلاحیتوں کی مالک ایک اور قوم آئی جسے قومِ ثمود کہا جاتا ہے۔ جو اپنی ترقیاتی صلاحیتوں میں قومِ عاد سے کسی طرح کم نہ تھی۔ اس قوم نے پختہ اینٹوں سے اونچے اونچے محلات تعمیر کیے اور پہاڑوں کو توڑ توڑ کر عظیم الشان عمارتیں بنائیں۔ زراعت و باغات کے ہنر کو اوجِ کمال پر پہنچایا۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ اس قوم نے ایک ہزار سے زیادہ بستیاں آباد کیں۔ اس کے بعد اصحابِ حجر نے بھی پہاڑوں میں شگاف کر کے ایسے محفوظ محل بنائے جن کے متعلق یہ خیال تھا کہ وہ ناقابلِ شکست دریخت ہیں۔ صنعتِ فنونِ مقیدہ میں وہ ترقیاں کیں جن سے آج کل کی عقولِ انسان حیران ہیں۔ قرآن حکیم میں دنیوی ترقی کے بعض ناجائز وسائل کا بھی ذکر ہے مثلاً اصحابِ مدین جن کی طرف حضرت شعیب علیہ السلام مبعوث ہوئے تھے یہ لوگ تجارت پیشہ اور وزن و پیمانہ میں بے ایمانی کر کے دولت کماتے اور بڑے ہی فسادی تھے۔ ان کے علاوہ صنعت و حرفت کے ترقیاتی وسائل اور مال و دولت و زر و مال کی کثرت سے بہرہ مند ہونے والی اور قوموں کا ذِکر بھی قرآن حکیم میں ہے۔ مثلاً قارون کی دولت، فرعون کی سلطنت، ملکۂ سبا کی ثروت، لقمان کی حکمت، ذوالقرنین کی ہمت جن کا ذکر قرآن حکیم میں ہے۔ تمام قرآن میں یہ کہیں بھی نہیں ہے کہ اقوام و ملل سابقہ کے یہ تمام ترقیاتی کارنامے خدا پرستی اور ایمان باللہ کے نتائج تھے۔ اس کے برعکس ان ترقی یافتہ قوموں میں بیشتر وہی ہیں جن پر اللہ کی نافرمانی، اس کے رسولوں کو ایذاء رسانی اور کفر و عصیان کے الزامات ہیں۔ جن کے باعث وہ قومیں انجام کار ذلیل و خوار ہوئیں اور مبتلائے عذابِ الٰہی ہو کر صفحۂ ہستی سے ناپید ہو گئیں۔