کتاب: محدث شمارہ 23 - صفحہ 36
ہے۔ غلط افکار کا یہ نتیجہ ہے ہے کہ مسلم دانش مندوں نے بھی یہ کہنا شروع کر دیا کہ قرآنی مطالب میں صحیح نہج فکر وہی ہے جو عہدِ حاضر کی ترقی یافتہ قوموں کی زندگی میں نظر آتی ہے اس سے ہٹ کر جو مسلمان قرآن پڑھتا ہے وہ طوطے کی طرح بے مصرف رٹ ہے، جس کاکچھ فائدہ نہیں۔
ایسے ہی ترقی پسند مسلمانوں کی تحریر و تقریر فلاحِ آخرت کے حصول کے لئے سعی کرنے کی بجائے دنیوی جاہ و جلال اور مادی قوت و برتری کی ترغیب و تائید کے لئے وقف ہو کر رہ گئی ہے۔ یہاں تک کہ جہاں جہاں قرآنِ حکیم پر اعمالِ صالحہ کی جزا کے طور پر آخرت کی نعمتوں کا ذکر ہے ان سب کی تعبیر و تصریح اس طرح کی جاتی ہے کہ گویا تمام اعمالِ خیر کا صلہ صرف اسی دنیا کی مادی ترقیات کا نام ہے۔ ان کے نزدیک لفظِ ’آخرت‘ کا مفہوم صرف نتائج دنیویہ تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اسلام کے مفہوم سے آخرت کا تصور نکال دینے کے بعد خدا کے تصور کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔ باوجود اس کے یہ اصحاب خدا اور اسلام اور پیغمبر اور قرآن کا بار بار نام لیتے ہیں لیکن غور دے یکھا جائے تو ان کا اس طرح نام لینا طوطے کی طرح قرآن پڑھنے سے بھی زیادہ خطرناک یا بے مصرف ہے۔ کیونکہ ہماری نظر کے سامنے دنیوی اور مادی ترقیات کے اوجِ کمال پر پہنچنے والی ایسی اقوام بھی ہیں جن کے نزدیک خدا نام کی کوئی ہستی ہی سرے سے موجود نہیں ہے اور ان کا عقیدہ یہ ہے کہ ان کی ہر گونہ ترقیات مادی میں خدا کا مطلق دخل نہیں ہے۔ بد قسمتی سے یہی فرعونی نظریہ عہدِ حاضر کے بعض دانشوروں کے تحت الشعور میں کار فرما ہے۔
لا دینی نظریات:
اس اسلامی لا دینی اور مطلق لا دینی میں اگر کوئی فرق ہے تو وہ صرف اس قدر کہ اول الذکر کے حامی اپنے نظریات کی تائید میں قرآنی آیات پیش کرتے ہیں اور ثانی الذکر لا دینی تحریک سرے سے قرآن کا انکار کرتی ہے۔ ہر چند کہ یہ اعتراف و انکار بھی نتیجہ کے اعتبار سے بے معنی و بے مقصد ہے تاہم مطلق لا دینی نظریات کے حامی کو عالی ظرف اور حوصلہ مند کہا جا سکتا ہے لیکن لا دینی نظریات پر اسلام کا نام چسپاں کرنے والا بلاشبہ بزدلی اور فریب کاری کا مظاہرہ کرتا ہے۔
اب ہم قرآن شریف کی روشنی میں ان زاویہ ہائے نظر کی نشاندہی کرنا چاہتے ہیں جس نے اس لادینی کو جنم دیا۔
قرآن حکیم نے نہایت وضاحت کے ساتھ دنیوی جاہ و جلال اور مال و متاع یعنی ہرگونہ مالی ترقیات