کتاب: محدث شمارہ 23 - صفحہ 35
اسلامی نظامِ حیات اور جدید رُجحانات
پروفیسر منظور احسن عباسیؔ
غیر مسلم اقوام کی مادی، صنعتی اور طبیعیاتی ترقیات اور ان کی محیرّ العقول ایجادات و اختراعات کو دیکھ کر بعض مسلم اقوام سخت حیران ہیں بلکہ ایک تحت الشعوری احساس کمتری میں مبتلا ہو کر اسلاف کے واقعی یا فرضی کارناموں کے بوسیدہ دامن میں پناہ لینے کی کوشش کرتے ہیں لیکن یہ روش بجائے خود اسلام کے منافی ہے۔
إن الفتی من قال إنی کذا
لیس الفتی من قال کان أبی
حضرت علی رضی اللہ عنہ جن کی عالی حوصلگی ضرب المثل ہے فرماتے ہیں کہ ’’آباء کے کارناموں پر اترانا کوئی اچھی بات نہیں جواں مردی تو یہ ہے کہ انساں خود کچھ کر کے دکھائے۔‘‘ ایسے لوگ جو صدیوں پیشتر کے مسلمانوں کے علوم و فنون اور ایجادات کا قصیدہ پڑھتے ہیں۔ وہ گویا موجودہ ملت اسلامیہ کی تحقیر و تذلیل کے مرتکب ہیں۔
اسبابِ تنزل:
کچھ اصحاب مسلمانوں کے اسبابِ تنزل میں اسلام سے بیگانگی اور اسلامی نظامِ حیات سے بے تعلقی کو سب سے اول درجہ پر رکھتے ہیں لیکن یہ عجیب بات ہے کہ خود اس بیگانگی و بے تعلقی کا کوئی معقول سبب نہیں بتا سکتے اس سے بھی زیادہ خوش عقیدہ وہ اصحاب ہیں جو اہلِ مغرب کی تمام ترقیات کو اسلام یا قرآن کی خوشہ چینی کی مرہون منت بتاتے ہیں۔ یہاں تک کہ بعض اصحاب کی رائے یہ ہے کہ بنی نوع انسان کی تمام مادی ترقیات محض قرآنی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کا نتیجہ ہیں اور یہ دانایانِ فرنگ جو دور دور کی کوڑیاں لاتے ہیں، وہ سب قرآنی مطالب کے دریا میں غوطہ زنی کا نتیجہ ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ غیر شعوری اعتراف ہے کہ قرآنی علوم سے فیض پانے والی وہیی قومیں ہیں جو اسلام کی بدترین دشمن ہیں اور صرف اسلام کی نام لیوا ہی ایک قوم ایسی ہے جو قرآنی فیض سے محروم ہے۔ اس قسم کے خیالات بظاہر اسلام سے ایک گہری عقیدت کی غمازی کرتے ہیں لیکن انجام کار اسی قسم کے خیالات سے اسلامی عظمت کے صحیح خدوخال پر پردہ پڑ جاتا