کتاب: محدث شمارہ 23 - صفحہ 34
سے کام نہ چلا سکے۔ اس کی دلیل یہ بھی دی ہے کہ دنیا نے مسائل کے سلسلہ میں ہمیشہ آپ کی طرف رجوع کیا ہے۔ (ص 8) سو عرض ہے کہ ہم کب کہتے ہیں مسائل ان سے نہ پوچھئے! ہم نے تو پہلے ہی لکھ دیا ہے کہ وہ اچھے مفتی، بہترین ادیب، بڑے قاضی اور کامیاب عالمِ دین ہیں۔ اس لئے جتنے مسائل چاہو پوچھو۔ لیکن یہ بات آپ کو کس نے بتائی ہے کہ جو مفتی ہو وہ ضرور خلیفہ بلا فصل ہی ہو گا۔ کیا بات اور دلیل میں کوئی تک ہے؟ صوفیاء کے روحانی جدِّ امجد: معارف لکھتا ہے کہ: ’صوفیاء کے تمام سلسلوں کی انتہا امیر المؤمنین پر ہوتی ہے اور وہاں سے بلا فصل ذاتِ رسول تک پہنچتی ہے۔‘ (ص 7) اگر دلائل کا سر منہ یہی ہے جو پیش کیا گیا ہے تو ظاہر ہے خلافت بھی ایسی ہی کوئی ثابت ہو گی۔ اے بندۂ خدا! اگر مراد، نظامِ مملکت کے دینی سربراہ سے نہیں بلکہ خانقاہیت سے ہے، تو رہے، چشمِ ما روشن دل ماشاد! وغیرہ غیرہ: اس کے علاوہ کبھی خم غدیر کا واقعہ پیش فرماتے ہیں۔ کبھی ولایت حج کا قصہ چھیڑ دیتے ہیں۔ کبھی انت منی بمنزلة ھارون من موسٰي کا ورد فرمانے لگ جاتے ہیں۔ کبھی بسترِ خواب کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حوالے کرنے کا واسطہ دیا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن یہ سب باتیں ہیں اور وہ بھی محرم کے دنوں میں دن بھر کے مارے دھاڑے ہوئے بے ہوش میں بیٹھ کر کرنے کی۔ جہاں بات تولی جاتی ہو، وہاں ایسی باتیں نہیں کی جاتیں۔ کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر پیغمبرِ خدا نے کسی رنگ میں کسی کی تعریف کر دی۔ کوئی کام اسے بتا دیا یا کوئی بات کہہ دی تو بس وہ خلیفہ بلا فصل بن گیا۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم عمر بھر نہ کسی سے کوئی بات کریں نہ اس کو کوئی کام بتائیں اور نہ کسی کی کوئی جائز خوبی ذکر کریں۔ اگر کچھ کر بیٹھیں تو اسے پہلے ’’خلیفہ بلا فصل‘‘ کا وثیقہ لکھ کر دیں۔ خلافت تمام ملتِ اسلامیہ کے دینی اور دنیوی مستقبل، وقار، استحکام اور فلاح و صلاح کی ذمہ داری اپنے سر لینے کا نام ہے۔ اس لئے اس کے بارے میں باتیں بھی اسی معیار کی ہونی چاہئیں۔ کچے دھاگوں سے کام چلانے سے خلافت کے تانے بانے بننے کا شغل کچھ مفید کام نہیں دے گا۔