کتاب: محدث شمارہ 23 - صفحہ 33
کہ آپ بھی اسی اسوۂ حسنہ کا اتباع کریں، تقیہ کریں اور ثواب لوٹیں۔ منقار زیرِ پر رہیں اور مزے کریں۔
آپ نے ’’تقیہ‘‘ جیسے طلسم کا سکوت توڑ کر کون سی نیکی کمائی ہے؟
شورائیہ خدائی عہدوں کے لئے نہیں:
شیعہ کے معارفِ اسلام نے لکھا ہے کہ:
’’شورےٰ وغیرہ کا محتاج تو ایک اقتدار مملکت سنبھالنے والا ہی ہو سکا ہے۔ خدائی عہدوں والا نہیں۔‘‘ (خلاصہ ص 7)
یعنی جب یہ حضرات دلائل کےمیدان میں اُترے ہیں تو عجیب ہی لگتے ہیں۔ بچوں کی سی باتیں کرتے ہیں۔ ان سے کوئی پوچھے کہ خلافت کا تعلق نظامِ مملکت سے ہے تو شوریٰ وغیرہ کا وہ خود بخود محتاج ہو گیا اور اگر خانقاہیت سے ہے تو ہمارا اس میں آپ سے جھگڑا نہیں۔ اگر آپ کہتے ہیں تو ہو گا اور رہے، ہمیں اس سے کیا۔
نیز ہمارے علم میں ’’غیراز رسول و نبی‘‘ دنیا جہاں میں اور کوئی ایسا تنظیمی عہدہ اور منصب نہیں ہے جو ’’وحیِ الٰہی‘‘ سے تشکیل پاتا ہو اور نہ کوئی بڑی سے بڑی ہستی رسول کے سوا شریعت اور دین کا ماخذ ہوتی ہے۔ خدا جانے آپ یہ دور کی کوڑی کہاں سے ڈھونڈ کر لائے ہیں۔ حضور عالی! یہ مقام دلائل کا ہے محرم کی مرثیہ خوانی کا نہیں ہے کہ الفاظ کے ہیر پھیر اور خوش گلو سے کام چل جائے گا نہ یہ سینہ کوبی کا مرحلہ ہے کہ کاغذ کوبی سے اس کا حق ادا ہو گا۔ یہ سنجیدہ مقام ہے ٹھوس اور سنجیدہ بات کیجئے۔ سدا محرم کے دن نہیں ہوتے کہ بناوٹی آنسوؤں، مصنوعی بین اور تکلف مآب سینہ کوبی سے گرمیٔ محفل کے سامان ہو جائیں گے۔
آپ سے مسائل پوچھئے:
’’ارشاد ہوتا ہے کہ خلافت چوتھی جگہ پر ملی۔ اگر کبھی بھی نہ ملتی تو بھی آپ کی ’خلافتِ محمدیہ یا نیابتِ الٰہیہ‘‘ پر سرمو فرق نہ آتا۔‘‘ (ص 8)
اگر یہ بات ہے تو پھر جھگڑا کاہے کا؟ جب ایک قوم فرضی بات کے فرض کر لینے سے بہل سکتی ہے تو دنیا میں اس کو بہلا لینا مشکل نہیں ہوتا۔ اگر بغیر نظامِ مملکت کے کسی کی خلافت کا کاروبار چل سکتا ہے تو اس سے زیادہ پر امن شہری اور کون ہو سکتا ہے۔ جھگڑا تو وہ کرے جو شیخ چلی کے فرضی منصوبوں