کتاب: محدث شمارہ 23 - صفحہ 32
دراصل لغت میں ’’وصی‘‘ کے معنے عام لحاظ سے کیے گئے ہیں کہ دنیا میں نفیاً یا اثباتاً وصی کس کے لئے استعمال ہو رہا ہے لیکن اسے اس سے بحث نہیں کہ وہ صحیح ہے یا غلط؟ یعنی شرعی لحاظ سے۔ وصیت کا حکم: ’’قرآن میں وصیت کرنے کا حکم ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ پیغمبر نے وصیت نہ کی ہو۔‘‘ (ص 15) کیا وصیت، صرف وصیتِ خلافت ہی رہ گئی ہے۔ اگر وہ بھی وصیتیں ممکن ہیں تو پھر اس سے آپ کو کیا فائدہ؟ ہاں حضور نے ’’خلیفہ‘‘ کی تعیین کے سوا نظامِ خلافت کے سلسلہ میں اور متعدد وصیتیں فرمائی ہیں مثلاً کیسے ہوں، جب منتخب ہو جائیں تو ان کی اطاعت کیسی ہو وغیرہ وغیرہ مگر یہ باتیں آپ کے مطلب کی نہیں ہیں۔ تاریخ طبری وغیرہ کا حوالہ: آیت وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ کے نزول پر حضور نے اپنے قرابت داروں کو جمع کرا کے پوچھا تھا کہ کون ایسا ہے جو میری مدد کرے اور میرا وصی اور خلیفہ بنے؟ قوم نے تو جواب نہ دیا، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا میں حاضر ہوں۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ یہ علی رضی اللہ عنہ میرا وصی اور خلیفہ ہے۔ تم اس کا حکم مانو۔‘‘ (ص 15) اس کا جامع اور پہلا اور آخری جواب یہ ہے کہ یہ روایت ہی ناکارہ ہے اور صرف قصے کہانیوں کے عجائب گھر میں رکھنے کے قابل۔ دوستو! مسئلہ ’وصی رسول اللہ‘ کا اور دلائل یہ؟ معلوم شد بافندگی۔ اس طرح ایک اور روایت حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی نقل کی گئی ہے جسے سن کر بس، سبحان اللہ اور واہ واہ کہہ لیجئے ورنہ ان طفل تسلیوں کا خون ہو جائے گا۔ امام حسن رضی اللہ عنہ کا ارشاد: مستدرک حاکم سے امام حسن رضی اللہ عنہ کا ایک خطبہ نقل کیا گیا ہے۔ اس میں ’انابن الوصی‘ کے الفاظ ہیں۔ بہتر ہو گا کہ اس روایت کو بھی چھپا کر تہ خانوں میں دکھ دیجئے تاکہ اس کو دنیا کی ہوا نہ لگنے پائے ورنہ۔ ہاں اس کا یہ پہلو بھی سوچنے کے قابل ہے کہ اتنا جاندار خطبہ دینے والا خطبہ دے کر خلافت سے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں دست بردار ہو جاتا ہے۔ خدا جانے اس میں کیا راز ہے؟ کہو گے ’’تقیہ‘‘ً تو ہم عرض کریں گے