کتاب: محدث شمارہ 23 - صفحہ 31
سامنے ہیں۔ ان کا جائزہ لے کر دیکھ لیجئے کہ کون اس میں کامیاب رہا اور کون نہیں۔ کون بہتر سیاستدان تھا اور کون نہیں۔ مہاجرین اور انصار نے جن پر جس جس دور میں جو فیصلہ کیا اور جس کے بارے میں اعتماد اور اطمینان کا جو مظاہرہ کیا وہ کس قدر صحیح تھا یا کس قدر بے جا تھا؟ ہاں دَور کی پُر آشوبی کا بہانہ بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت کی صفت نہیں تھی بلکہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے عہد کی پُر آشوبی اور فتنہ سامانی اس سے کہیں زیادہ حوصلہ شکن، درد ناک اور آناً فاناً تھی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ایک وسیع و عریض مملکت پالی پوسی ملی، جتنی خرابی تھی اس وقت کفر و ایمان کی نہیں تھی انتظامی قسم کی تھی۔ غیروں سے نہیں اپنوں سے تھی۔ لیکن حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دور میں انتظامی خرابی بھی تھی اور کفر و ایمان کی بھی، اپنوں کی بھی تھی اور غیروں کی بھی، اندرونی بھی تھی اور بیرونی بھی۔ لیکن اس کے باوجود سب سے زیادہ کامیاب رہے، یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بن الخطاب کو کہنا پڑا کہ
’’آج جس مقامِ عزیمت کا مظاہرہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے کیا اگر میں ہوتا تو اس میں فیل ہو جاتا۔‘‘
اس لئے دور کی پُر آشوبی کی آڑ بھی تقیہ جیسی آڑ ہے۔ سیاسیات کے ماہرین اور علماء نے یہ تصریح کی ہے کہ خلافت کے لئے اہلِ علم کی بہ نسبت سیاسی مدبر زیادہ موزوں ہوتا ہے۔ اگر دونوں کا اجتماع ہو جائے تو نورٌ علیٰ نور ہو ا۔ لیکن سیاسی تفوق سے عاری انسان کے لئے اس وقت تک خلافت کے دائرہ میں قدم رکھنے کے لئے کوئی گنجائش نہیں جب تک قوم میں اس سے بہتر اور موزوں آدمی مل سکتے ہوں۔
پائے چوبیں:
اب آپ ان کے بنیادی دلائل ملاحظہ فرمائیں:
لغت میں:
’’مختلف لغت کی کتابوں میں ’وصی‘ کے معنے حضرت علی بیان کئے گئے ہیں، تو معلوم ہوا کہ آپ وصی رسول تھے۔‘‘ (معارف اسلام نومبر، دسمبر 1963ء ص 14)
شیعہ دوستوں کی سطحیت کی اس سے بد تر مثال اور کیا ہو سکتی ہے کہ ’’وصی رسول‘‘ کے معنی لغت میں تلاش کیے جائیں۔