کتاب: محدث شمارہ 23 - صفحہ 30
اس کے باوجود ہمارے تاثر اور عقیدت مندی میں کوئی فرق نہیں آیا۔
سیاسی سے زیادہ آپ اہلِ علم تھے:
ہمارے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے نزدیک اس وقت کے اکابر صحابہ کی بہ نسبت حضرت علی رضی اللہ عنہ بلکہ آپ کے خاندان کے سارے حضرات اتنے سیاستدان نہیں تھے جتنے وہ اہل علم تھے۔ ’’لکل فن رجال‘‘۔ ہر جج اور اہل علم، ضروری نہیں کہ وہ بڑا سیاستدان بھی ہو۔ ہم نے بعض ایسے جج بھی دیکھے ہیں جو ریٹائر ہونے کے بعد، جس قدر وہ عدالتِ عالیہ کے منصب پر کامیاب رہے ہیں، سیاست کے میدان میں اتنے کامیاب ثابت نہیں ہوئے۔ بلکہ قلم دان چھوڑتے ہی ان کی بنی ہے۔ ہمارے نزدیک نہ یہ عیب کی بات ہے اور نہ طعن کی، بلکہ صلاحیتوں کے مختلف پیمانوں کی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ’’علم و قضا‘‘ کے باب میں بہت اونچے مقام پر تھے۔بلکہ آپ اونچے قسم کے ادیب اور انشا پردار ز بھی تھے اور ایسے لوگ عموماً سیاسی کم ہوا کرتے ہیں۔ گو ناممکن نہیں تاہم کم یاب ضرور ہیں۔ ان باتوں کو تولنے کے لئے عقیدت کی ترازو بہت کمزور ہوتی ہے بلکہ اس کے قاضی ٹھوس حالات اور واقعات ہوتے ہیں اس لئے اگر ہر خلیفہ کے دور میں اقتدار کے حالات کا مطالعہ کیا جائے تو آسانی سے پتہ چل جائے گا کہ کون سیاسی باب میں کامیاب رہا ہے اور کون نہیں کامیاب رہا۔ میری عقیدت کتنی دہائیاں دے، کتنے واسطے دے، کتنی چلائے، کتنی تڑپے اور کتنی ہی اس کی نزاکتوں پر بنے۔ بہرحال واقعات کی بے رحم گردش اپنے کانٹےاور راستے بدل کر چلنا نہیں جانتی، سیدھی چلتی ہے۔ پوری رفتار کے ساتھ چلتی ہے۔ جتنے پردے ہوتے ہیں ان کو چاک کرتے ہوئے بڑھتی رہتی ہے۔ جتنی دہائیاں اور فریادیں ہوتی ہیں۔ ان سے بہری، گونگی اور اندھی ہو کر دوڑتی ہے جو اس کا راستہ روکتا ہے وہ اس کو روند کر گزر جاتی ہے۔ اور یہ سبھی کچھ اس کا فطری اندز ہوتا ہے، عادلانہ ہوتا ہے، غیر ظالمانہ ہوتا ہے۔ واقعات کا یہ تصرہ اور کچا چِٹھا سب سے زیادہ بے لوث مؤرخ ہوتا ہے۔ بے خطا نقاد اور توانا مناد ہوتا ہے۔ بے غبار آئینہ اور مصفا شیشہ ہوتا ہے۔ اس لئے جو لوگ، کسی وجہ سے بھی، ان واقعات سے آنکھیں بند کر کے چلنے کی کوشش کریں گے۔ ان کے نقوش کو چھپانے میں وقت کا اسراف ہی کریں گے۔ بہرحال حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دوسرے خلفاء کے سیاسی دور کے حالات اور واقعات ہم سب کے