کتاب: محدث شمارہ 23 - صفحہ 29
مہاجرین اور انصار کی شورائیہ نے سب سے پہلے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا انتخاب کیا تھا۔ اس لئے ’’خلیفہ بلا فصل‘‘ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ہوئے، حضرت علی رضی اللہ عنہ نہ ہوئے۔ ہماری بات نہیں مانتے تو نہ مانئے لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سامنے تو کم از کم دم نہ مارئیے کیونکہ ایمان اور عشق کے دعوے کی یہ شرطِ اولیں ہے۔ آگے آپ کی مرضی۔ اور اس سے دوسری بات یہ ثابت ہوئی کہ ملتِ اسلامیہ کے جمہور کا اعتماد، ’’خلیفہ‘‘ کے انتخاب کے لئے بنیادی حیثیت رکھا ہے۔ اور وہ بلا شبہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو حاصل تھا۔ آپ کے انتخاب میں تمام مہاجرین و انصار نے حصہ لیا اور تقریباً ان کی امامت پر سب کا اجماع ہوا اور اگر ایک آدھ نے اختلاف کیا بھی تو محض ذاتی رنجش کی وجہ سے مگراس کے باوجود ان میں سے کسی ایک نے بھی اس انتخاب کو چیلنج نہ کیا تھا۔ اس کا جواب خدارا ’’تقیہ‘‘ کی آڑ میں نہ دیں اور لگی لپٹی بغیر کہیں۔ خدا کوئی کسی کا نہیں۔
بایں دعویٰ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کو فاش کر دیا:
یہ کتنی بد نصیبی ہے کہ یہ اہلِ بیت کے نادان دوست جس ذات گرامی کی عظمتوں اور رفعتوں کی وکالت کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں وہی اس کو اپنے دور کے لحاظ سے ’’غیر منقول شخصیت‘‘ ثابت کر رہے ہیں۔ یہ تو یہ حضرات بھی تسلیم کرتے ہیں کہ مہاجرین اور انصارین اور انصار نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو منتخب نہیں کیا تھا بلکہ اس کا وہاں پر کوئی مذکور بھی نہیں تھا۔ اگر اسے ’’ہلے گلے‘‘ کی بات بھی بنا لی جائے تو بھی معلوم ہوتا ہے کہ بعد میں بھی کسی نے ان کا نام نہیں لیا تھا۔ اگر یہ ثابت بھی کر دیا جائے کہ فلاں نے نام لیا تھا تو یہ ہرگز ہرگز ثابت نہیں کیا جا سکے گا کہ جمہور صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس کے خلاف آواز اٹھائی تھی یا کم از کم حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے انتخاب کے موقعہ پر کسی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا نام لیا ہو یا اس کے بعد چھ (۶) ناموں کی فہرست میں سے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اکثریت کا اعتماد حاصل کیا ہو۔ اگر نہیں حاصل کیا تو اس کے یہ معنی ہیں کہ اس وقت دوسرے اکابر صحابہ کی موجودگی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اتنے مقبول نہیں تھے، جتنے دوسرے تھے۔ یہ قوم کے اعتماد کی بات ہے۔ آپ اور میرے جذبات اور عقیدت مندیوں کی بات نہیں ہے۔ دیکھا یہ ہے کہ اپنے بھائیوں میں سے کون سے بھائی کو جمہور کا اعتماد حاصل ہے اور وہ آپ کو معلوم ہی ہے۔ اب کسی سے کوئی کیا کہے۔ بہرحال شیعہ حضرات نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ذات گرامی کو زیرِ بحث لا کر ان کی نیک نامی میں اضافہ نہیں کیا، بلکہ متوقع مقام سے نیچے گرانے کا ارتکاب کیا ہے۔ لیکن