کتاب: محدث شمارہ 23 - صفحہ 28
علي ما بايعوھم عليه فلم يكن للشاھد أن يختار ولا للغائب أن يرد و إنما الشوري للمھاجرين والأنصار فإن اجتمعوا علي رجل وسموه إما ما كان ذٰلك للّٰہ رضي فإن خرج من أمرھم خارج بطعن أو بدعة ردوه إلي ما خرج منه فإن أبٰي قاتلوه علي اتباعه غير سبيل المؤمنين (نهج البلاغه۔ مطبوعه مصر۔ تختي خورد جلد ۲ ص ۸)
یعنی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو خط لکھتے ہوئے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لکھا کہ مجھ سے اس قوم نے بیعت کی جس نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی بیعت کی تھی اور اسی شرط پر کی تھی جس شرط پر ان کی کی تھی۔ اب نہ کسی حاضر کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ کسی اور کو پسند کرے اور نہ کسی غائب کو اس کا اختیار ہے کہ وہ اسے رد کرے۔ اتھارٹی اور سند صرف مہاجرین اور انصار کی شورائیہ ہی ہے۔ اگر وہ کسی ایک شخص کی امامت پر متفق ہو کر اس کو امام بنا لے تو اسی میں اللہ کی رضا ہو گی۔ اس کے بعد اگر کوئی شخص اس کی اطاعت نہ کرے۔ یا اس پر اعتراض کرے تو اس کو اس کی اطاعت کے لئے مجبور کرو۔ اگر انکار کر دے تو اس کے ساتھ جنگ کرو۔ کیونکہ اس نے مومنوں کی راہ کے خلاف راہ اختیار کی۔
غور فرماؤ! حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خلافت کے سلسلہ میں دو اصول ذکر فرمائے ہیں:
1. ایک یہ کہ نماز جیسی دینی عظمت اور پیغمبرانہ منصب میں جو شخصیت حضور کی خلیفہ اور نائب ہو گی وہی سیاسی لحاظ سے خلیفہ اور امام بھی ہونی چاہئے اور یہ ہم سبھی جانتے ہیں کہ مرض الوفات میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کی امامت حضرت ابو بکر رضٰ اللہ عنہ کے سپرد فرمائی تھی۔ مگر اس تلمیح کو وہ حضرات کیا سمجھیں، جنہوں نے اصولوں کے بجائے خاندانوں کے پیمانوں سے خلافت کی کھیر تقسیم کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔
2. دوسرا یہ کہ مہاجرین اور انصار کی شورائیہ ہی اس سلسلہ کی آخری سند ہے وہ جسے اپنی امارت کے لئے انتخاب کر لے، وہی حق ہو گا اور اس کے خلاف جو کرے اس کے خلاف جہاد کیا جائے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اسی ارشاد سے یہ بھی معلوم ہوا کہ:
خلافت کسی کے لئے مخصوص نہیں تھی اور نہ کسی کے حق میں بطور وصیت الاٹ ہوئی تھی ورنہ شورائیہ سے استناد کے کیا معنیٰ؟ بہرحال حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بیان کردہ اصول کے مطابق