کتاب: محدث شمارہ 23 - صفحہ 27
ہو تو لب تک نہ ہل سکیں اور یہ ساری باتیں صرف ’’تقیہ‘‘ کے چورن کے ذریعے ہضم اور گوارا ہتی رہیں۔ اف ان نادان دوستوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کس مقام پر لا کھڑا کر دیا ہے۔ ہمارا علی رضی اللہ عنہ : بخدا ہمارا علی رضی اللہ عنہ ان کے علی رضی اللہ عنہ سے بہت مختلف ہے۔ وہ بے باک مجاہد، نڈر سپاہی اور لومۃ لائم کے خوف سے بے نیاز اور انتہائی شجاع اور بہادر ہے۔ اس لئے انہوں نے یہ اعلان کیا تھا: والذی خلق الحبة وبرئ النسمة لو عھد اليّ رسول اللّٰہ صلی االلّٰہ علیہ وسلم عھدا لجاھدت عليه ولم انزك ابن أبي قحافة يرقي درجة واحدة من منبره بخدا اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے (خلافت کے سلسلہ میں) کوئی وصیت کی ہوتی تو میں ڈٹ کر جہاد کرتا اور ابن ابی قحافہ (حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ) کی کیا مجال تھی کہ وہ منبرِ رسول کی ایک سیڑھی پر بھی قدم رکھ سکتے۔ (فضائل الصدیق للعشاری) ہمارا اس پر ایمان ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے لئے وصیت کی ہوتی تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس کو کوئی چھیننے کی کوشش نہ کرتا۔ اگر کرتا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ اس کو کبھی نہ چھوڑتے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا استدلال: چنانچہ نہج البلاغہ میں حضرت علی کی یہ تصریح بھی آئی ہے کہ: ’’مہاجرین اور انصار کی شورائیہ جس کو انتخاب کر لے وہی برحق خلیفہ ہے۔ اگر کوئی اس کو نہ مانے تو اس کے ساتھ جنگ کریں، فان ابٰی فقاتلوہ علی اتباعه غير سبيل المومنين (نهج البلاغة مصري تختي خورد جلد ۲ ص ۸) ایک دفعہ کسی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے متعلق پوچھا تو آپ نے عجیب پتے کی بات کہی، فرمایا: کان خلیفة رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم في الصلوٰة رضية لديننا فرضيناه لدنيانا کہ نماز میں وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ اور نائب تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ہمارے دین کی امامت کے لئے پسند فرمایا تو ہم نے ان کو اپنی دنیا کی امامت کے لئے پسند کر لیا۔ ومن کتاب له علیه السلام إلٰي معاوية إنه بايعني قوم الذين بايعوا أبا بكر و عمر و عثمان