کتاب: محدث شمارہ 23 - صفحہ 26
آپ اپنے ان عقائد اور خیالات میں سچے اور سنجیدہ ہیں تو آپ کو ان صحابہ کرام کا شکوہ نہیں کرنا چاہئے، جنہوں نے ان کو انتخاب نہیں کیا تھا۔ کیونکہ بندوں کے لئے نیابت بندہ کی چاہئے۔ جو خدا ہوں یا خدا کی برادری سے تعلق رکھتے ہوں، ان کو وہ یہاں پر کیسے انتخاب کرتے؟ بہرحال شیعہ حضرات کے یہ نظریات دیکھ کر ہمیں اپنے بریلوی اور رضا خانی دوست یاد آگئے ہیں۔ سوچتا ہوں کہ شخصیت پرستی میں ان میں سے کون دوسرے سے بازی لے گیا ہے۔ شیعہ یا بریلوی؟ موحد امت میں یہ بھی عجیب چیز ہیں۔ نظرِ بد دور یہ بھی کلمۂ توحید کا ورد کرتے ہیں۔ خدا جانے کس منہ سے؟
کیا یہ بھی ان کے لئے کوئی قابلِ رشک مقام ہے؟
اگر بندہ بھی الوہیت کے خصائص میں الٰہ العالمین کا شریک اور سہیم ہے تو ہمیں معلوم نہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء، اصفیاء اور اتقیاء کو بندوں کی اصلاح اور تبلیغ کے لئے کیوں بھیجا۔ کیوں کہ دنیا پہلے بھی اسی قسم کے گھناؤنے عقائد، شرک و بدعت، کفریات اور توہمات سے اٹی پڑی تھی۔ آخر ان حضرات کو آکر بھی اگر یہی کرنا تھا تو یہ کام تو ان بزرگوں کی تشریف آوری سے پہلے بھی ہو رہے تھے۔
خدا تعالیٰ نے ان کو بھیجنے کا تکلف کیوں کیا؟
کیا یہ بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لئے کوئی قابلِ رشک مقام ہے کہ ان کو انسانیت سے محروم کر کے خدا بنا ڈالیں، تولنے لگیں تو انہیں رسولوں سے بھی اونچا لے جائیں۔ کام کا موقعہ آئے و ان کے لئے خواجگی اور شہزادگی کے سوا اور کوئی کام پسند نہ آئے اور اعلاءِ کلمۃ اللہ کی جرأت مندانہ گھڑیاں پیش آجائیں تو ان کو ’’تقیہ‘‘ جیسی بزدلانہ دیوار کے پیچھے لا کر دکھایا جائے، مقامِ عزیمت کی تفسیر کا کوئی عملی مرحلہ آئے تو معذرتوں کی اوٹ میں چلے جائیں، شجاعت اور بہادری کی داستانیں سنانے کھڑے ہوں و مرحب و عنتر کے معرکوں، خیبر و حنین کی جنگوں کے سب سے بڑے فاتح نظر آئیں، غیروں کی توپوں سے لڑ جائیں، ان کے قلعوں کو مسمار کر ڈالیں اور ٹوٹی ہوئی تلوار کے ذریعے دشمنوں کی صفوں کو تہہ و بالا کر دیں لیکن گھر میں ان کی یہ حالت دکھائی جائے کہ۔
اس کو حضور نے خلافت کی وصیت کی مگر یار دوست ان سے پوچھے بغیر آگے بڑھ کر خلافت پر قبضہ کر لیں تو سرکار بہادر گھر کی چار دیواری میں مہینوں دبکے بیٹھے رہیں اور بات کہنے کی اور رسول کی وصیت کے اجراء اور نفاذ کے لئے ان کی ساری ہمتیں جواب دے جائیں۔ باغ فدک کا سوال پیدا