کتاب: محدث شمارہ 23 - صفحہ 25
نور اللہ، یہ نوری (ص 58) 3. ان کی زیارت نبیوں کی زیارت، ان کی زیارت عبادت، ان کا ذِکر حضور پاک کا ذِکر، ان کا ذکر اللہ کا ذکر (ص 58) 4. مَا یَنْطقُ عَنِ الْھَوٰی۔ اِنْ ھُوَ اِلَّا وَحْیٌّ یُّوْحٰی۔ حضرت علی کی شان میں ہے۔ (ص 59) 5. سارے باغ قلم بن جائیں۔ سمندر سیاہی بن جائیں۔ جن شمار کرنے والے اور انسان لکھنے والے پھر بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل شمار نہیں کر سکیں گے۔ (ص 59) 6. شاید آپ اللہ ہیں (العیاذ باللہ) ص 60) 7. شافعی مر گیا مگر نہ سمجھ سکا کہ علی اس کا رب ہے یا اللہ اس کا رب ہے (نقلِ کفر کفر نبا شد) (ص 60) 8. حضور نے حضرت علی کو دس لاکھ علوم تعلیم فرمائے۔ (ص 63) 9. حضور اور حضرت علی کے پاک ناموں کی شفاعت سے الف. آدم صفی اللہ کی توبہ قبول ہوئی۔ ب. نوح نجی اللہ کو عالمی طوفان سے نجات ملی۔ ج. عیسیٰ روح اللہ کو سولی سے نجات ملی اور ملکوت میں جگہ ملی۔ د. ان کی برکت سے حضرت موسیٰ نے جنود فراعنہ پر فتح پائی۔ ر. ان کے صدقے میں حضرت ابراہیم کی آگ گلزار ہوئی۔ س. ان کے طفیل حضرت ایوب کو شفا نصیب ہوئی۔ ق. ان کی وجہ سے حضرت یعقوب کو بچھڑا ہوا یوسف ملا۔ (ص 68) 10. ؎ ولی ولی کی صدا تھی جہاں جہاں تھا علی علی نظر آئے جدھر جدھر دیکھا (ص 69) اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہی تعارف اور شان ہے جو ان حضرات نے ’’معارف اسلام‘‘ کے ذریعے پیش کیا ہے تو یقین کیجئے! اس ذاتِ گرامی کے لئے نیابتِ رسول اور خلافت کے مقام کی تلاش سب سے بڑی گھٹیا کوشش ہے۔ آپ کے لئے مقامِ عرش پر نیابتِ خدا چاہئے۔ کیونکہ دینِ اسلام میں تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی یہ مقام نہیں ہے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لئے تشخیص کیا گیا ہے۔ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ حضور کے نائب اور خلیفہ یا وصی کیسے؟ اور اس کے لئے جھگڑا کیوں؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لئے تو اب مقام وہ تلاش کیجئے جہاں انسانیت کے بجائے الوہیت برا جمان ہو۔ اس لئے ہمارا خیال ہے کہ اگر