کتاب: محدث شمارہ 23 - صفحہ 23
پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو پیش آیا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم شبِ قدر کی تعیین فرما دینا چاہتے تھے مگر یہ بات حکمتِ الٰہی کو منظور نہیں تھی۔ اس لئے غائب سے تنازع اور جھگڑے کا سامان کیا گیا اور وہ کامیاب رہا۔ اسی طرح یہاں پر بھی من جانب اللہ تنازع اور جھگڑا کھڑا ہوا تاکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اس کام کو ’’امت کی صواب دید اور شورائیہ‘‘ پر چھوڑ دیں اور آخر یہی ہوا۔ اور حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ یا حضرت علی رضی اللہ عنہ (ادب المفرد کی روایت کے لحاظ سے) کی یہ عدمِ تعمیل کچھ شعوری نہیں معلوم ہوتی بلکہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ کسی ائبی قوت کے ذریعے غیر شعوری طور پر ان سے ایسا سرزد ہو گیا۔ ورنہ یہ کسی طرح بھی ممکن نہیں ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک حکم فرمائیں اور کوئی صحابہ رضی اللہ عنہم لیت و لعل یا تعمیل سے گریز کرے۔ یہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی روایات، نفسیات اور عشق کے قطعاً خلاف ہے۔
اب جو چیز حکمتِ الٰہی کو منظور نہیں تھی، اس کے خلاف کسی گروہ کا اصرار، حکمتِ الٰہی کی تغلیط کے مترادف ہو گا۔ بہرحال ہمارے نزدیک امت کے کسی فرد کی خلافت کے لئے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نص کی تلاش سعی لا حاصل ہے اور حکمتِ الٰہی کے اشارات اور تلمیحات کو نہ سمجھ سکنے کا نتیجہ ہے۔ اب اس کے بعد جس کا جتنا جی چاہے اپنا وقت ضائع کرے۔
جو کچھ ہم نے اوپر کی سطور میں عرض کیا ہے اس کی تائید شیعہ حضرات کی کتب سے بھی ہوتی ہے چنانچہ فلک النجاۃ کے مصنف قرطاس والے واقعہ کا پس منظر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
وأما سكوته عليه السلام بعد التنازع ما كان من عنده بل كان بوحي كما بين في مقامه فصار أمر الكتابة منسوخا بالوحي
اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سکوت فرمانا تنازع کے بعد بھی اپنی جانب سے نہ تھا بلکہ یہ بھی وحی سے تھا پس امرِ کتابت بوجہ رفع فساد، تاکہ جنگ اور ارتداد تک نوبت نہ پہنچے، بوحی الٰہی منسوخ ہوا۔ [1]
نوٹ: یہ امر بھی ملحوظ رہے کہ اس کتاب پر شیعہ حضرات کے مندرجہ ذیل اکابر اور ائمہ نے بھی تقریظیں اور تائیدی نوٹ لکھے ہیں۔ گویا کہ یہ کتاب تمام شیعہ حضرات کی مصدقہ اور مستند ہے:
[1] فلک النجاۃ فی الامامۃ والصلوٰۃ المعروف یہ غایۃ المرام فی معیار الامام عربی مع اردو ترجمہ جلد اول ص 339 مطبوعہ نوائے وقت پریس لاہور طبع دوم 3 جنوری 1950ء مؤلف، حافظ علی محمد صاحب، مترجم امیر الدین صاحب