کتاب: محدث شمارہ 23 - صفحہ 22
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بجائے دسری بزرگ ہستیوں کو اس کے لئے انتخاب کر لیا تو ہم اسے ہی حق تصور کرتے ہیں۔ اور یہی اصول حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خود حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے سامنے رکھا تھا اور اسے ہی برحق قرار دیا تھا۔ تفصیل آگے آئے گی۔ (نہج البلاغہ۔ جلد ۴ ص ۸)
کیونکہ اس سے کسی فرد کی ’’جاہ طلبی اور اقتدار پرستی‘‘ کی پیاس بجھانا مقصود نہیں ہے، خدمتِ دین منظور ہے۔ سو وقت کے اہل الرائے جس کو دیانتداری کے ساتھ اپنا رہنما اور دین کا خادم پسند کر لیتے ہیں اسے ہی ہم صحیح اور برحق سمجھتے ہیں۔ اس کے علاوہ اور جتنے طریقے ہیں وہ افراط اور تفریط سے محفوظ نہیں ہیں۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لئے وصیت، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے سامانِ تہمت ہے:
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آلِ رسول کے لئے زکوٰۃ کو حرام قرار دیا تھا تاکہ آپ پر یہ الزام نہ آئے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے (العیاذ باللہ) اپنے خاندان کے لئے نبوت کا کاروبار کیا ہے۔ اسی طرح اگر پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی رضی اللہ عنہ یا کسی اور خانوادہ نبوت کے لئے خلافت کی وصیت فرماتے تو دنیا کو بد گمانی کا یہ بجا موقعہ مل جاتا کہ حضور نے نبوت کا یہ سارا ڈھونگ (العیاذ باللہ) اپنے خاندان کے اقتدار کے لئے رچایا تھا۔ حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ان تمام الزامات اور دھبّوں سے منزہ اور پاک ہے صلی اللہ علیہ وسلم ۔
حکمتِ الٰہی کام کر گئی:
واقعۂ قرطاس ایک مشہور واقعہ ہے۔ کاغذ، قلم، دوات کے مطالبہ پر جو شور و غل ہوا۔ اس پر ہزاروں نے افسوس کیا۔ کسی نے اس کی ’’عدمِ تعمیل‘‘ کے جوابات تیار کئے۔ شیعوں کے خوش فہم طبقہ نے اپنی جگہ پر اس کے یہ معنی قرار دیئے کہ ’’حضور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لئے وصیت لکھنا چاہتے تھے‘‘ اور سنیوں نے یہ اعلان کیا کہ ’’دراصل آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے لئے تحریر فرمانا چاہتے تھے۔‘‘ غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔ لیکن ہمارے نزدیک ان میں سے ایک پہلو بھی قطعی نہیں ہے۔ سب باتیں رجماً بالغیب کی حیثیت رکھتی ہیں یا استنباطات ہیں۔ اصلی اور سچی بات یہ ہے کہ:
اس سلسلہ میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام جو بھی فیصلہ کرنا چاہتے تھے وہ حکمتِ الٰہی کو منظور نہ تھا اور بالکل اسی طرح اس موقعہ پر تنازع، جھگڑا اور شور برپا ہوا جس طرح ’’شبِ قدر‘‘ کی دریافت