کتاب: محدث شمارہ 23 - صفحہ 21
شخصیت پرستی کا وہی پرانا روگ: اوثان اور اصنام کی تاریخ کا ایک طالب علم اچھی طرح جانتا ہے کہ شخصیت پرستی کے جذبہ نے ہی انسان کو بتوں کے گھڑنے کا حوصلہ بخشا تھا۔ اور یہ ایک عجمی ذہنیت اور بت پرستانہ سرشت ہے کہ جس خاندان میں کوی ایک آدھ فرد ’’فضل و تقدس‘‘ کا مظہر بن جاتا ہے۔ بعد میں آنے والی اس کی ساری نسل کے لئے فضل و تقدس کا یہ استحقاق پیدائشی حق تصور کر لیا جاتا ہے۔ حالانکہ وحی نے صلحاء اور انبیاء کی تاریخ کے ہر موڑ پر اس قسم کے سنگ و میل اور نشان لگائے ہیں کہ اگر انسان ان کا بنظرِ غور مطالعہ کرے تو وہ شخصیت پرستی کے چرکوں اور فتنوں سے بچ جائے۔ حضرت آدمؑ کی آغوش میں ’’قابیل‘‘، حضرت نوحؑ کے گھر میں ’’پسر نوح‘‘، حضرت ’’لوطؑ‘‘ کے گھر میں ’’کافر بیوی‘‘ حضرت موسیٰؑ کی قوم میں سامری، حضرت خلیل اللہ ؑ کے خانوادہ میں آزر، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وعلٰی جمیع الانبیاء کے کنبہ میں ابو جہل، ابو طالب اور ابو لہب کے ’’مینارِ نامرادی‘‘ نصب کیے تاکہ دنیا مقربینِ الٰہ کی بے چارگی اور خدا کی بے نیازی کا اندازہ کر لے مگر ان سے درسِ عبرت وہی روحیں لے سکتی ہیں جو نتائج کے اخذ کرنے کا سلیقہ رکھتی ہیں اور جنہوں نے سبھی کچھ اسی دنیا کو نہیں سمجھ لیا ہے۔ خاندانِ نبوت کے سلسلہ میں شیعہ حضرات کا یہ غلو، آل اطہار کے بارے میں ان کا یہ افراط، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ائمۂ معصومین کے متعلق ان کی یہ مسرفانہ عقیدت دراصل اسی عہدِ کہن کی صدائے بازگشت ہے مگر ان کو اس کا ہوش نہیں ہے۔ بہرحال حق پر بعض افراد اور خاندانوں کی اجارہ داری اور کسی کو پسند ہو تو ہو اسلام کو پسند نہیں ہے اور نہ کوئی باہوش آدمی اس کو قبول کر سکتا ہے۔ خلفاءِ راشدین کی خلافت کو برحق اور خود خلفاء کو باخدا ماننے کے باوجود ہم نہ ان کو معصوم تصور کرتے ہیں اور نہ کسی کے تمام افکار اور اعمال کو غلطیوں سے منزہ اور پاک مانتے ہیں۔ ہمارے نزدیک وہ سبھی اللہ والے تھے، دیانتدار اور دانش مند بزرگ تھے لیکن بہرحال انسان تھے۔ گو ان میں صدیق بھی تھے اور ملہم اور محدث بھی تاہم وہ بدرجہا پیغمبرانہ عصمتوں سے ورے تھے۔ اگر امت اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلافت کے لئے منتخب کر لیتی تو ہم اسے ہی حق سمجھتے اور ان سابقون الاوّلون سے الجھنے کو اپنے لیے بد بختی اور کورذوقی تصور کرتے اور اگر اس نے