کتاب: محدث شمارہ 23 - صفحہ 20
ہو تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ یہ لوگ ’’ختم نبوت‘‘ کے قائل نہیں ہیں اور غالباً اس کا ان کو انکار ہے۔ اس لئے وصی کوئی تھا یا نہیں تھا۔ اب بہرحال آپ کے فرض کر لینے سے تو وہاں کوئی تبدیلی ہونے سے رہی۔ لہٰذا بہتر ہے کہ اپنی فکری اور عملی قوتوں کے استعمال کے لئے کوئی دوسرا میدان تجویز کریں جس کا کوئی ٹھوس نتیجہ بھی بر آمد ہو۔ ائمۂ معصومین کا چکر: جن لوگوں نے امتِ محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام میں بر سر اقتدار فرد کے لئے ’ظل اللہ‘ یا ’امام معصوم‘ کے نعرے ایجاد کیے ہیں۔ انہوں نے امت کی آنکھوں سے نور اور دماغ سے شعور چھیننے کی کوشش کی ہے۔ جمہوری اقدار کو غارت کیا اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی جرأت مندانہ صلاحیتوں کو تباہ کیا ہے۔ رائے اور تدبیر کی آزادی پر قدغن عائد کی اور ان سے اختلاف رائے کو مقام کافری سے ہم کنار کیا ہے۔ کیا یہ بھی کوئی دانشمندانہ یا نیکی کام کام ہے۔ دینِ اسلام میں بندوں میں ’’مقامِ عصمت‘‘ صرف انبیاء کے لئے مخصوص ہے۔ اس لئے نہیں کہ وہ میکانکی طرز کے بنے ہوئے ہوتے ہیں کہ ان سے لغزش کا صدور ممکن نہیں ہتا بلکہ محض اس لئے کہ وحیِ الٰہی ہر وقت ان کی رفیقِ حال رہتی ہے۔ ذرہ بھر ڈگمگاتے نہیں کہ وحیِ الٰہی آگے بڑھ کر اُن کو تھام لیتی ہے۔ ورنہ جو انسان وحیِ الٰہی سے ہم کنار نہیں ہے۔ وہ گو بذات خود پیغمبر ہی کیوں نہ ہو، لغزش سہو و نسیان اور خطا سے قطعی طور پر محفوظ نہیں رہتا۔ جب اس سٹیج پر پیغمبر کا یہ حال ہے تو غیر نبی کی جو پوزیشن ہو سکتی ہے وہ ظاہر ہے۔ دراصل دنیا بعض انسانوں کے ذاتی فضل و تقدس یا وحی سے سرفراز ہونے کی بنا پر ان کو خصائص انسانی اور سرشتِ آدمیت سے بالکل بالا تر لے جاتی ہے۔ ان کے لئے وہ یہ تو تسلیم کر لیتی ہے کہ اسے سونا بھی چاہئے اور کھانا پینا بھی۔ سردی و گرمی کا احساس بھی ان کو ہو سکتا ہے اور غمی و خوشی سے بھی ہم کنار ہو سکتے ہیں۔ لیکن اس کی سمجھ سے یہ چیز بالا تر ہے کہ ان سے بھول اور غلطی بھی ہو سکتی ہے۔ اگر یہ چیز انہیں سمجھ میں آجائے تو وہ ’’ائمۂ معصومین‘‘ کی فرضی تخلیق کے سودا سے آزاد ہو جائیں۔ اور انسانوں کو انسان کے ہی رجے میں رہنے دیں اور ان میں ’’وحی کی توانائیوں اور خدائی خصائص کی جھلکیوں‘‘ کا جو سراب نظر آتا ہے وہ ان مدعیوں پر بے نقاب ہو جائے۔