کتاب: محدث شمارہ 23 - صفحہ 19
کے ساتھ جس کو لوگ ملک و ملت اور دینِ اسلام کے مستقبل، مفاد اور استحکام و ترقی کے لئے مفید سمجھ کر انتخاب کر لیں گے، وہی برحق ہو گا۔ لیکن یہ اس صورت میں ممکن ہو گا جب پہلے سے یہ نیابت یا خلافت کسی فرد یا خاندان کے نام الاٹ نہ کی جا چکی ہو اور نہ یہ کسی فرد اور گروہ کی میراث اور جاگیر سمجھی گئی ہو۔ ورنہ انتخاب کے معنی ہی فضول ہیں۔ اور یہ اصول واقعی صحیح بھی ہے اور برحق بھی کیونکہ جس نے انسانی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ قسامِ ازل نے ’اہلیت اور صالحیت‘ کسی فرد اور خاندان کی میراث نہیں بنائی۔ آج یہ سرفراز ہوتی ہے تو کل دوسری کوئی قوم سربلند ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ لیل و نہار نے یہ نظارے بھی دیکھے ہیں کہ حرمِ فراعنہ کو تو حق سے ہم کنار کر دیا گیا ہے اور خاندانِ نبوت کے چشم و چراغ یا سرپرست کو طاغوت کے آساں پر جبہ سائی کے ذریعہ ذلیل اور رسوا کر ڈالا ہے۔ خدا کی قسم اس تقسیم کے پیمانے اس کے اپنے پاس ہیں، ہم اور آپ کیا جانیں کہ کون کس چیز کے قابل ہے۔
اب ان حالات میں کوئی ائمہ معصومین کی گرہ لگا کر خلافت کی گراں باریوں سے کیسے عہدہ برآ ہو سکتا ہے اور یہ ہمارا روز و شب کا مشاہدہ ہے کہ نیک سے بد اور بد سے نیک پیدا ہو رہے ہیں، اہل سے نا اہل اور نا اہلوں سے اہل جنم لے رہے ہیں تو معلوم ہوا کہ از خود کسی فردِ واحد یا خاندا کے نام سے اس کی الاٹ منٹ کا فیصلہ کوئی فطری اور دانش مندانہ فیصلہ نہیں ہو سکتا۔
(د) اسی طرح اس دینِ حنیف میں ان لوگوں کی کیا کھپت ہو سکتی ہے جس میں اس سے بڑھ کر اور کوئی نادانی نہیں تصور کی گئی کہ:
انسان حقائق اور درپیش مسائل کو چھوڑ کر کسی ایسے فرضی نعرہ اور لا حاصل منصوبہ کے نام پر امت کے اندر انتشار و افتراق کا ایک غیر مختتم سلسلہ جاری کر ڈالے جس کو اگر اب تسلیم بھی کر لیا جائے تو نتیجہ کوئی بھی برآمد نہ ہو۔ خلافت جس ترتیب سے انجام پا گئی ہے وہ ترتیب تو اب ٹوٹ نہیں سکتی جو پہلے منتخب ہوئے وہ بعد میں نہیں چلے جائیں گے اور جو بعد میں آئے ہیں، وہ پہلے نہیں آجائیں گے تو آخر ایک ایسے لا حاصل مشغلہ میں امت کی توجہ، محنت و وقت اور قوتیں کیوں ضائع کی جائیں۔
اگر یہ حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ رسول کے وصی کا مسئلہ ضرور طے ہو جائے تاکہ پھر امت سے غلطی نہ