کتاب: محدث شمارہ 23 - صفحہ 18
آپ کو اس سے بھی زیادہ حوصلہ شکن نظر آئے گا۔ اس کے علاوہ آپ کو یہ بھی محسوس ہو گا کہ ان کے اختلاف کا محرک اور باعث۔ 4. کوئی ایسا امر بھی نہیں ہے کہ اس کو اگر اب تسلیم بھی کر لیا جائے تو اس کی کسی طرح کوئی تلافی ہو جائے۔ بس یہ ایک فرضی نعرہ، بے وقت آواز اور بے محل رسہ کشی ہے جو صرف اس مثل کے مصداق ہے کہ: ’’سانپ نکل گیا لکیر پیٹا کر۔‘‘ اب یہ لوگ اپنا اور ہمارا قیمتی وقت بھی ضائع کر رہے ہیں اور ان کی وجہ سے ملی قوت کا بے جا اسراف اور قومی اتحاد کا بے تحاشا ضیاع بھی ہو رہا ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ دینِ حنیف میں ان عناصرِ اربعہ کی پوزیشن: اب اگر کوئی صاحبِ دماغ کسی تفصیلی تبصرہ کے بغیر بھی ان چاروں امور کے صرف عنوانوں پر ہی ایک اچٹتی ہوئی نگاہ ڈال لے تو بتائیے! اس کی نگاہ میں ایسے مسلک کی آبرہ کیا رہے گی جس کی عمارت مندرجہ بالا اربعہ عناصر کی بنیاد پر ہے یا اس دینِ حنیف سے اسے کیا نسبت ہو سکتی ہے؟ (الف) جس کی دعوت شخصیتوں کی طرف نہیں، اصولِ حقہ کی طرف ہے۔ (ب) یا جس میں دین و شریعت کا ماخذ کوئی فرد ذاتی حیثیت میں یا کوئی خاندان نسلی حیثیت میں نہیں ہے بلکہ صرف وحی الٰہی ہے۔ یہاں تک کہ اس دین کے نزدیک حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذاتِ مبارک بھی اس حیثیت سے مطاع اور پیشوا نہیں ہے کہ آپ قریش خاندان کے ایک فرزند ارجمند اور محمد بن عبد اللہ ہیں بلکہ صرف اس لئے ہمارے مطاع اور مقتدا ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ’’محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ ہیں۔ یعنی سرکاری منصب اور عہدہ کی بناء پر آپ ہماری توجہات کا مرکز ہیں ورنہ یہ ذاتِ گرامی نزولِ وحی سے پہلے چالیس سال کی عمر تک پہلے بھی تو ہم میں موجود ہی تھی۔ (ج) اسی طرح اس دین حنیف سے انہیں کیا نسبت ہو سکتی ہے جس میں نبوت کے لئے انتخاب کی ذمہ داری صرف خدا کا حق تصور کیا گیا ہے۔ لیکن سیاسی پیشوائی اور نیابت یا خلافت کا ماملہ امت پر چھوڑ دیا گیا، کیونکہ اس کا تعلق براہِ راست بندوں سے متعلق ہے۔ اس کی نشاندہی کے لئے وحی نے اپنی کوئی ذمہ داری نہیں لی۔ اس لئے پوری آزادی اور دیانداری