کتاب: محدث شمارہ 23 - صفحہ 16
ممکن بھی نہیں، تاہم نقلی غرض کم ہے۔ غرض یہ ہے کہ گو ہم سب کچھ گھر سے نہیں لائے اور نہ کوئی لا سکتا ہے بلکہ سبھی کچھ انہی کا ہے تاہم معینہ فرد، کتاب یا مسلک کی ترجمانی کم ملحوظ رہی ہے بلکہ قرآن حکیم کو آزاد رکھا ہے، کیونکہ لوگ پابند ہیں، قرآن کسی کا پابند نہیں ہے۔ اس لئے کوشش کی ہے کہ اس کو ’’اسلاف‘‘ کی طرح سمجھنے کی کوشش کی جائے اور اس سے پرہیز کیا جائے کہ متداول طبقاتی ماحول کے مطابق وہ کسی کا ’’چاوش‘‘ بھی دکھائی دے۔ جزوی توافق تو ممکن ہے لیکن پورا مجموعہ کسی ایک کی ’’چھاپ‘‘ بن کر رہ جائے؟ اس ’’چاکری‘‘ سے قرآن حکیم کو بالا تر رکھنے کی سعی و کوشش کی جائے گی۔ انشاء االلّٰہ۔ وما توفیقی الا بااللّٰہ علیه توکلت والیه انیب، فھو جی تلخیص: ہر رکوع کے آخر میں ’’صورت و معنی‘‘ کے عنوان سے متعلقہ رکوع کی تلخیص پیش کی جائے گی جن کو احکام و مسائل سے زیادہ ’’تذکیر‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ اپنی اس ’’تفسیر و تعبیر‘‘ کے سلسلہ میں تفسیر و تعبیر کی حد تک گو ہم خود پوری طرح مطمئن ہیں تاہم ہمیں اپنی تعبیر پر اصرار بھی نہیں ہے۔ مجھے اپنی علمی بے بضاعتی اور کم مائیگی کا بھی شدید احساس ہے۔ اس لئے غلطی اور لغزش کو کبھی بھی خارج از امکان تصور نہیں کیا۔ ہاں نیت کی حد تک ’’فتور‘‘ سے خدا کی پناہ چاہتا ہوں کیونکہ یہ کام اک عظیم عبادت ہے۔ دعا کرتا ہوں کہ اللہ میری مدد فرمائے کہ یہ ضائع نہ ہو۔ آمین