کتاب: محدث شمارہ 23 - صفحہ 15
سلیمان اموی سے وہ سیدنا ابو عمر والدانی صاحب التیسیر (ف ۴۴۴ھ) سے وہ اپنی مخصوص اسانید کے ذریعہ قراء سبعہ سے، قاری عاصم والی سندیوں ذکر کی: ہم سے ابو الحسن طاہر بن غلبون نے، ان سے ابو الحسن الہاشمی الفریر (نابینا) مقری نے، ان سے ابو العباس احمد بن سہیل الاشنانی نے بیان کیا۔ وہ فرماتے ہیں میں نے ابو عبید بن الصباح سے قرآن پڑھا، انہوں نے حفص سے، انہوں نے عاصم سے پڑھا۔ حضرت عاصم نے حضرت ابو عبد الرحمٰن السلمی اور حضرت ابو مریم زر بن حبیش سے پڑھا۔ حضرت سلمی فرماتے ہیں میں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ، حضرت علی رضی اللہ عنہ ، حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے پڑھا، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اخذ کیا۔ حضرت زر بن حبیش فرماتے ہیں میں نے حضرت عثمان اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے پڑھا۔ انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اخذ کیا۔‘‘ (ملخصاً) ملاحظہ ہو۔ ’’الانوار الجلیہ فی مختصر الاثبات الحلبیہ‘‘ ’’وھذہ بعض الأسانید التی أدت إلینا ھٰذہ الروایات رواية وتلاوۃ (کتاب التیسیر ص 15) یہ وہ کچھ سندیں ہیں جو ان روایات (مذکورہ فی الکتاب) نے ہم تک پہنچائی ہیں روایت اور تلاوت کے طریقے پر۔ آج کل ان اسانید کی طرف توجہ نہیں دی جاتی لیکن یہ ’’سنت اسلاف‘‘ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس ’سلسلۃ الذہب‘ سے منسلک ہو جانے کی وجہ سے ہماری بھی مغفرت ہو جائے۔ اقول قولی ھذا کما قال عمر بن الخطاب: أرجو أن أکون معھم بحبی إیاھم وإن لم أعمل بمثل أعمالھم (بخاری) استفادہ: تفسیر و تعبیر کے سلسلہ میں ہم نے ممکن حد تک بلا امتیاز مسلک و ملّت اور بلا امتیاز فن و کتب، سب سے استفادہ اور کسبِ فیض کیا ہے لیکن اس کی حیثیت زیادہ تر حاصل مطالعہ کی ہے۔ مجموعی مطالعہ سے جو ایک ’’ذہن‘‘ بنتا ہے اس سے زیادہ کام لیا ہے۔ اس سلسلہ میں گو بہت سی باتیں اکابر سے بعینہٖ بھی آگئی ہوں گی بلکہ اس سے احتراز کسی کے لئے