کتاب: محدث شمارہ 23 - صفحہ 13
نہ رہی، ہاں مناسب ضرور سمجھی گئی البتہ ’’مؤلفین کی کتب‘‘ کے حوالے کی پابندی پھر بھی باقاعدہ لازمی رہی۔ چونکہ اسناد امت محمدیہ علی صاحبہا الف الف صلوٰۃ وسلام کے خصائص میں شمار ہوتا ہے۔ اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ تاقیامت اس کا جو سلسلہ جاری ہے۔ اس کے پسِ پردہ کچھ قدرتی عوام بھی ضرور کار فرما ہیں:
راقم الحروف کی اسانید:
جن صاحب الاسانید اساتذہ سے راقم الحروف نے قرآن و حدیث کی اسانید حاصل کیں، وہ تین ہیں۔ دو سے تو کچھ قراءۃً، کچھ سماعاً اور کچھ اجازۃً حاصل ہوئیں اور ایک سے صرف ’’اجازۃً‘‘ مگر اس کا سلسلہ پہلے دو سے کافی وسیع ہے اور قرآن و حدیث کے علاوہ تقریباً تقریباً دوسرے تمام متداول علومِ عربیہ کی کتب کی اسانید بھی کچھ اس کے دائرہ میں آگئی ہیں۔ پہلے دو بزرگوں کے نام یہ ہیں۔
حضرت مولانا عبد التواب رحمہ اللہ :
حضرت مولانا عبد التواب ملتانی رحمۃ اللہ علیہ اپنے عہد کے ’’ولی اور محدّث‘‘ تھے۔ شیخ العرب والعجم حضرت سید نذیر حسین دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اور مسند احمد بن حنبل کے مرتب شیخ احمد بن عبد الرحمٰن البناء المعروف بالساعاتی (من قطان مصر القاہرہ) کے ارشد تلامذہ میں سے تھے۔ ہم نے آپ سے سنن دارمی، جامع ترمذی اور سنن ابی داؤد کے کچھ حصے سبقاً پڑھے اور بقیہ کتب احادیث اور مرویات کی انہوں نے اجازت مرحمت فرمائی۔ (قال اجزتہ بالاجازۃ الخاصۃ والعامۃ)
حضرت الشیخ احمد اللہ دہلوی:
راقم الحروف کے دوسرے شیخ، شیخ الحدیث حضرت مولانا احمد اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ابن الحاج القاری امیر اللہ رحمہ اللہ ہیں۔ 1359ھ میں صحیحین پوری۔ موطا مالک مکمل، سنن اربعہ کی کچھ حدیثیں اور بیضاوی شریف تا مقام درس پڑھیں۔ یہ میرے لئے بہت بڑا اعزاز ہے کہ آپ نے ان ایام میں جامع ترمذی کی تدریس میرے سپرد فرمائی تھی اور بعض فتاویٰ بھی مجھ سے لکھوائے تھے۔ والحمد للّٰہ علیٰ ذلک (وما قلت ھذا إلا تحدثا بنعمة االلّٰہ)
آپ، حدیث شیخ الکل حضرت مولانا سید نذیر حسین دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت الشیخ حسین بن محسن الانصاری الخزاعی سے روایت کرتے ہیں۔ آپ نے بھی مجھے اجازۂ خاصہ و عامہ سے نوازا (إنی قد أجزت الطالب المذکور کما أخذت قراءۃ و سماعا إجازۃ عن مشائخ أجلاء أعلام)