کتاب: محدث شمارہ 23 - صفحہ 12
اس کا نزول ہوا مگر اپنے دور میں بیٹھ کر اور یوں جیسے ہم اس سے کچھ پوچھنے چلے ہیں یا ہمیں وہ کچھ بتانے آیا ہے۔
قراءت:
جیسا کہ ہر ملک کا حال ہے، عرب قبائل میں بھی بعض الفاظ کا تلفظ ایک دوسرے سے مختلف تھا اس لئے قرأت قرآن میں بھی وہ رنگ باقی رہا لیکن یہ گھبرانے کی کوئی بات نہ تھی۔ مادری زبان اور لہجہ کی مجبوری تھی۔ اس لئے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد تھا کہ:
إن ھذا القراٰن أنزل علی سبعة أحرف یہ قرآن سات طرح پر اترا ہے (مسلم عن عمر رضی اللہ عنہ )
یعنی جب مضمون ایک ہے تو پھر خیر ہے۔
کلا کما محسن فلا تختلوا (بخاری عن ابن مسعود) دونوں ہی اچھا پڑھتے ہو، لڑو نہیں۔
قُرّاء:
ان کے ذریعے اور انہ کی مختلف قرأتوں کے ساتھ ہم تک قرآن پہنچا۔ اپنے اس مختلف اسلوب میں ہم تک جن بزرگوں کے ذریعے یہ قرآن پہنچا، ان کا نام قراءِ سبعہ (سات قاری) ہے جن کے اسماءِ گرامی یہ ہیں:
1. حضرت نافع، ابو رویم مولیٰ جعونۃ (ف 169ھ) یہ امام مالک کے استاذ نہیں، دوسرے ہیں۔
2. ابن کثیر: ابو معبد عبد اللہ بن کثیر الداری المکی ( ف 120ھ)
3. ابو عمرو: ابو عمرو بن العلاء بن عمار الخزاعی البصری (ف 254ھ)
4. عاصم کوفی: ابوبکر عاصم بن ابی النجود الاسدی الکوفی (ف 128ھ)
5. حمزہ: ابو عمارہ حمزہ بن حبیب الزیات التیمی (ف 156ھ)
6. کسائی: ابو الحسن علی بن حمزہ النحوی مولیٰ بنی اسد (ف 189ھ)
7. ابن عامر: ابو عمران عبد اللہ بن عامر الیحصبی الیمنی (ف 118ھ)
جس قاری کے شاگرد جہاں پہنچے، وہاں ان کی قرأت کا اسلوب رائج ہوا۔ پاک و ہند میں بہ روایت حفص (ف 190ھ) حضرت عاصم (ف 128ھ) کی قرأت عام ہوئی اور یہی اب ہمارے سامنے ہے۔
اسانید:
شروع میں ’’قرآن و حدیث‘‘ کی بہ قاعدہ روایت اور حکایت کے لئے بہ قاعدہ سند کی ضرورت تھی جب یہ مدون ہو گئے۔ رجال اسانید سامنے آگئے۔ اختراع اور وضع کا خطرہ جاتا رہا تو اب سند ضروری