کتاب: محدث شمارہ 23 - صفحہ 10
کے بجائے حکومت کی ترجمانی کرتے ہیں، الا ما شاء اللہ۔ (نوائے وقت ملخصاً)
جناب! اب ذہن یہ بن گیا ہے کہ انسان انسانیت کا نہیں، آنت کا نام ہے اس لئے روٹی، کپڑا اور مکان پہلے اور وہ بھی جیسے بن پڑے کماؤ۔ یہ وہ نعرہ ہے جو موجودہ اربابِ اختیار نے قوم کو دیا ہے اور صرف اس لئے دیا ہے کہ دنیا نظریۂ پاکستان کے پیچھے دوڑنا بھول جائے۔ بس روٹی دیکھ کر پھول جائے۔ ظاہر ہے کہ اس کے بعد ضمیر اور ایمان کی بات بھی ایک کاروباری نعرہ بن جاتا ہے۔
جن صحافیوں کا ذہن یہ بن گیا ہو، ان سے یہ توقع کرنا کہ وہ مفادِ عاجلہ سے بلند ہو کر ملک و ملت کے وسیع تر مفاد کے لئے قلم اور زبان کی زکوٰۃ نکالیں گے؟ بہت بڑی بھول ہے۔
دراصل ملّتِ اسلامیہ کے جس بھی فرد یا طبقہ کو اربابِ حکومت ملک و ملت کے بجائے اپنے ذاتی اغراض کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کیا کرتے ہیں وہی ملک و ملت سے غداری کا ارتکاب بھی کرتے ہیں۔ قوم کی سیرت اور کردار کو مسخ کر کے وہ ملک کی کوئی بہتر خدمت انجام نہیں دیتے کاش! اپنی ذات سے بالا تر ہو کر یہ لوگ ملک اور قوم کی کچھ خدمت کر سکتے۔ اقتدار آنی جانی شے ہے۔ ملک اور قوم سدا رہنے والی حقیقت ہے۔ عارضی چسکے کے پیچھے لازوال ملّی دولت کو پامال کرنا، بہت بڑی ملک دشمنی ہے۔ خدا ہوش دے!
تحریکِ استقلال کے رہنما ریٹائرڈ ایئر مارشل اصغر خاں نے صدر بھٹو پر الزام لگایا ہے کہ:
’’سربراہ مملکت کے لے ایک محل تعمیر ہو رہا ہے جس پر 16 کروڑ لاگت آئے گی اور ڈیڑھ کروڑ روپیہ لاڑکانہ ریلوے اسٹیشن کی تعمیرِ نو پر خرچ کرنے کی منظوری دے دی گئی ہے۔‘‘ (نوائے 23/ جنوری)
صدر بھٹو نے غریب عوام کو روتی کپڑا دینے کا جو وعدہ کیا تھا اس کی بسملہ ’اول خویش بعد درویش‘ کے اصول پر شروع کر رہے ہیں۔ عوام گھبرائیں نہیں، دنیا با امید قائم، کبھی تو آپ کی بھی خدا سنے گا۔