کتاب: محدث شمارہ 22 - صفحہ 9
پولیس ملکی نظم و نسق اور پُرامن ماحول رکھنے کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ لیکن اب پولیس اور عوام کے درمیان یوں ٹھن گئی ہے کہ:
شاید پولیس محافظِ عوام نہیں ، فریقِ مخالف ہے۔ پہلے بھی اس کو کچھ ’’اچھی شہرت‘‘ حاصل نہیں تھی، حالیہ ہنگاموں کی وجہ سے تو اور بھی عوام کی نظروں سے گر گئی ہے۔ ملک کے مستقبل کے لئے یہ کچھ اچھی فال نہیں ہے۔
حالایہ ہنگاموں کے سلسلہ میں گورنر کھر کی جو شوخیاں کار فرما رہی ہیں ۔ کچھ زیادہ شایانِ شان نہیں تھیں ، قوم سوچ رہی تھی کہ صدر بھٹو ان کی وجہ سے بڑے ابتلا میں پڑ جائیں گے، لیکن یہ دیکھ کر عوام کی حیرت کی حد نہیں رہی کہ صدر بھٹو نے چُوم کر ان کو آنکھوں پر رکھ لیا ہے۔ بہرحال یاری تو قابلِ داد ہے مگر یہ سوجھ بوجھ کی بات نہیں محسوس ہوتی۔
صدرِ محترم آج کل ’’جمہوریت اور عوام‘‘ کے نام کا وظیفہ پڑھ رہے ہیں تاکہ مشکل حل ہو جائے مگر تاڑنے والے کہہ رہے ہیں کہ ان کا نام اس لئے لیتے ہیں کہ ان کے ہاں عملاً یہ دونوں نہیں ہیں ورنہ یقین دلانے کی کیا ضرورت تھی؟ اس کے علاوہ فتنہ کا آغاز کر کے قوم کو مشتعل کیا جاتا ہے۔ جب لوگ سڑکوں پر نکل آتے ہیں تو پھر انہیں کوسا جاتا ہے۔ چہ خوب!
اربابِ اقتدار اپنے کارنامے عوام کو گنوانا چاہتے ہیں مگر لوگ اپنے آس پاس جو کچھ دیکھتے ہیں وہ سبھی کچھ اس کے برعکس ہے۔ کارنامے ہوں اور لوگوں کو بتلانا پڑیں تو اس کے معنی یہی ہوئے کہ کچھ نہیں ہوا، ورنہ عوام کو خود ہی معلوم ہوتا۔
(۶)
صدر نے قوم سے کہا کہ:
’’اگر آپ سیاست میں اموات کا امتزاج چاہتے ہیں تو ہم اس کے لئے تیار ہیں ۔‘‘ (نوائے وقت)
صدر ہو کر دھمکیوں کے ذریعے اپنی قوت اور قاہری کا لوہا منوانے کی راہ اختیار کرنا ایک معمہ ہی ہے۔
خواجہ رفیق کے قتل کو سیاستدان کا قتل کہا اور پھر یہ تاثر دیا کہ ایشیائی ممالک میں یہ عام بات ہے، گویا کہ صدر یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ’’یہ کوئی اتنی بڑی غلطی نہیں ۔‘‘ انا للہ۔
(۷)
ڈاکٹر نذیر احمد شہید کے بعد خواجہ رفیق بھی جبر و استبداد کی نذر ہو گئے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ انفرادی