کتاب: محدث شمارہ 22 - صفحہ 8
کے متعلق یہ بات کہی تھی کہ ؎ خدا نے ان کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنہیں خبر نہیں روش بندہ پروری کیا ہے؟ صدرِ محترم ہوں یا ان کے دوسرے دست و بازو، ان کے منہ سے خیر کا کلمہ مشکل سے ہی نکلتا ہے۔ اب وہ اس موڈ میں ہیں کہ قوم پر اپنی رائے مسلط کریں اور اتنا ہراس پیدا کریں کہ ہزار بے چینیوں کے باوجود لوگ دبکے پڑے رہیں اور چُوں کرنے کا حوصلہ بھی نہ کر سکیں ۔ غور فرمائیں کہ حکومت کا منشا امن و امان رکھنا اور ملکی عافیتوں کا تحفظ ہوتا ہے۔ اس کے بجائے اگر وہ ’’خون کی ندیاں ‘‘ بہانے پر آجائیں اور ان ہلاکت آٖرینیوں کی ہولناکی کا تعارف بایں الفاظ کرانا ضروری سمجھیں کہ ’’اس پر ہمالیہ بھی خون کے آنسو روئے گا‘‘ تو اس وقت کوئی مستغیث کہاں جا کر امن و عافیت اور داد رسی کی بھیک مانگے؟ امریکہ، روس، چین اور فرانس وغیرہ ممالک بھی ہمارے سامنے ہیں ۔ کیا ان کے حکمران بھی اسی قسم کی زبان استعمال کیا کرتے ہیں جس کو نمونے صدر محترم اور گورنر کھر پیش کر رہے ہیں ؟ اگر ہمارے اکابرِ شایانِ شان وضعداری اور مقام و مرتبہ کے مطابق رکھ رکھاؤ سے کام لیتے تو زیادہ بہتر تھا۔ بہت بولنے، زیادہ انٹرویو دینے اور تقریروں کی بھرمار کرنے سے یہ لوگ زیادہ فاش ہو رہے ہیں مگر اس کا ان کو احساس نہیں ہے صبح و شام بولتے رہنے کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ اب دنیا ان کو ’’بلبلِ ہزار داستان‘‘ سمجھنے لگی ہے کہ ان کی پچھلی لَے بعد کی لَے کے مخالف ہی ہوتی ہے۔ ان کا اگلا بیان عموماً پچھلی غلطی کو دھونے میں صرف ہو جاتا ہے جو صاف ہونے کے بجائے اور چیستاں بن جاتا ہے۔ موجودہ اربابِ اقتدار کی برکات کا تو ابھی کچھ پتہ نہیں چل سکا، ہاں حالات کے تیور بتاتے ہیں کہ انہوں نے اپنے غلط مصالح کے لئے پوری قوم کو غلط راہ پر ڈال دیا ہے۔ اس لئے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کل تک اس کے کیا نتائج برآمد ہوں گے۔ ہمارے نزدیک یہ سیاست نہیں ، سیاست بازی ہے جس کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ اگر وقت ہی پاس کرنا ہے تو کوئی اور دھندا کریں ۔ قوم کے مزاج کو نہ بگاڑیں ۔ یہ ملک دوستی نہیں ہے۔ (۵) اسے کیا کہیے !