کتاب: محدث شمارہ 22 - صفحہ 7
بے نیازی حد سے گزری بندہ پرور کب تلک
ہم کہیں گے حالِ دل اور آپ فرمائیں گے کیا؟
بہر حال قوم اور اسلام کے بہی خواہ اپنے عوام کو جھنجوڑتے ہوئے زبانِ حال سے یہ کہے جا رہے ہیں ؎
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن!
خاک ہو جائیں گے ہم، تم کو خبر ہونے تک
(۴)
بنگلہ دیش ہم سے ٹوٹ کر بھی ہمارے لئے عذاب بنا ہوا ہے۔ بنگلہ دیش ملّتِ پاکستانیہ کے افتراق و انتشار کا نشان ہے، اب تو اس کے نام میں بھی یہ تاثیر ہے کہ جہاں لیا جاتا ہے وہاں بھی افتراق و انتشار کے دیو دندنانے لگ جاتے ہیں ۔ بالکل یہی کیفیت ہمارے ملک کی ہے۔ بنگلہ دیش دفع ہوا ہے تو دفع کرو، اسے مان کر کیا لینا ہے اگر پھر جُڑ جانے کی توقع ہے تو پھر اسے مان کر ہمیشہ کے لئے کیوں اپنے سے جدا کرتے ہو؟ مناؤ بتدریج قریب ہونے کے لئے وسائل ڈھونڈو، ایک دوسرے کے سلسلہ میں جو غلط فہمیاں پیدا ہو گئی ہیں ، انہیں دور کرو، اگر ہو سکے تو ان رکاوٹوں کو ہٹانے کی کوشش کرو، جو ہمارے افتراق کا سب بنیں اور ہمارے تعلقات کو مزید کشیدہ کرنے کا موجب ہو رہی ہیں ۔
ہمارے نزدیک بانیٔ پاکستان جناب محمد علی جناح مرحوم کے ’’پاکستان‘‘ کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا سبب وہ کوتاہی ہے جو پاکستان کو ’’موعود پاکستان‘‘ میں تبدیل کرنے میں اختیار کی گئی۔ بعد میں یہ وراثت نا اہل چھوکروں کے ہاتھ میں آئی۔ جس کو انہوں نے اپنے اقتدار اور زور بازو کے لئے تختۂ مشق بنایا۔ ملک اور ملت کی کچھ شرم نہ رکھی۔ غیر اسلامی ذہن کے لوگ آگے بڑھے، ناخواندہ عوام نے انہی کو نجات دہندہ تصور کر لیا اور بالآخر یہ اندھیرا ان کو لے ڈوبا۔
حالیہ المیہ کے ذمہ دار حضرات اگر ملّتِ اسلامیہ کی قیادت سے رضاکارانہ طور پر الگ ہو جائیں تو یقین کیجئے یہ دونوں بازو پھر سے متحد ہو سکتے ہیں ۔ مگر اتنا ایثار کون کرے؟ ’’بھُس میں چنگاری ڈال بی جمالو الگ کھڑی‘‘ ایک مشہور کہاوت ہے جس نے اب بھیس بدل لیا ہے۔ اسے اب کون پہچانے؟
ہماری موجودہ قیادت جس سے ہمیں توقعات تھیں ، وہ اب ہماری توقعات پر بھاری بنتی جا رہی ہے۔ خاص کر یہ دیکھ کر کہ ان کو معلوم ہی نہیں کہ خواجگی کیا شے ہے؟ بہت دکھ ہوتا ہے۔ غالباً اقبال مرحوم نے انہی