کتاب: محدث شمارہ 22 - صفحہ 6
(۳)
تخلیقِ پاکستان کے جو اسباب و علل اور محرکات تھے انہیں صرف وہی لوگ ملحوظ رکھ سکتے تھے اور وہی ان کا احترام بھی کر سکتے تھے جنہوں نے اپنی قیمتی مساعی اور قوتیں اس کے قیام میں صرف کیں مگر خدا کو کچھ منظور ہی ایسا تھا، وہ یکے بعد دیگرے اُٹھتے چلے گئے، یہاں تک کہ میدان خالی رہ گیا۔ بعد میں پاکستان کے جو وارث بنے وہ نہ صرف نا اہل تھے بلکہ بد نیت بھی تھے۔ اس لئے انہوں نے ملک کو انہی بنیادوں پر تعمیر کرنے کے بجائے اس پر اپنے نجی اغراض کے محل تعمیر کیے، اسے کاروبارِ سیاست کی منڈی بنایا اور سیاسی سٹہ بازی کے ذریعے نہایت ڈھٹائی کے ساتھ پاکستان کے مستقبل کو ہار آئے۔
آج کل پاکستان کے مختلف حصوں میں اس کے جو وارث بنے ہیں اور اس کی باگ ڈورِ سیاست جن کے اشارۂ ابرو کے ساتھ وابستہ ہو کر رہ گئی ہے۔ عموماً وہ لوگ ہیں جو پاکستان کے نام سے بہت چڑتے تھے جہاں یہ صورتِ حال ہو وہاں اس پاکستان کا کیا بھلا ہو سکتا ہے۔
اس کے علاوہ ان میں وہ لوگ بھی آدھمکے ہیں جو قیامِ پاکستان کے سلسلہ میں خالی الذہن تھے مگر اپنی افتاد طبع اور خاندانی اثرات کی وجہ سے اس کے بارے میں کچھ زیادہ سنجیدہ اور مخلص بھی نہ تھے۔ بس اس سے ان کو اتنا تعلق تھا کہ ان کو ان کا حصہ ملنا چاہئے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے فرضی اور جعلی حق اور حصہ کے لئے جدوجہد شروع کی اور کرتے آرہے ہیں اور غالباً کرتے ہی چلے جائیں گے۔ اس لئے ملک کے ایک گوشے میں کبھی یہ آواز اُٹھتی ہے کہ پاکستان مزدوروں کے مفاد کے تحفظ کے لئے بنا تھا۔ لہٰذا مزدوروں کو اُٹھ کھڑا ہونا چاہئے تو دوسرے گوشے سے یہ صدا بلند ہوتی ہے کہ پاکستان کے قیام سے غرض صرف صوبائی مفاد اور خود مختاری تھی، کوئی بولا، دراصل یہ ایک نئے تجربہ کی کوشش تھی جو ناکام ہو گئی کیونکہ زمانہ مذہب اور دین کے تصور سے کافی آگ نکل گیا ہے لہٰذا ملک میں اسلامی بنیادیں مہیا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں رہی۔ الغرض ان سب مکروہ نعروں سے اُن کی غرض اِن کی آڑ میں سیاسی کھیل کھیلنا تھی۔ جیسا جس سے بن پڑا وہی داؤد استعمال کیا۔ بہرحال ابھی تک تو ملک کے یہ بد خواہ ہر جگہ کامیاب ہیں اور ملک پر جو قیامتیں ٹوٹ رہی ہیں وہ محض انہی کی ’’شامتِ اعمال‘‘ کا نتیجہ ہیں ۔ لیکن ان لوگوں کوسمجھنے میں شای عوام کو ابھی اور وقت لگے گا اور جب سمجھ آجائے گی اس وقت تیر کمان سے نکل چکا ہو گا۔ ابھی تو ان کی بے پرواہی کا وہ عالم ہے جس کا کسی شاعر نے یوں نقشہ کھینچا تھا ؎